پیر، 27 اپریل، 2020

فکرِ اقبالؒ


شذرات فکرِ اقبالؒ

ترتیب و پیشکش:محمد ظہیر اقبال
11،اپریل 2020ء



مندرجات
فن
فن ایک مقدس جھوٹ ہے۔

اکتشاف
جب کسی عظیم ذہن سے ہمارا رابطہ قائم ہوتا ہے تو ہماری روح اپنا اکتشاف کر لیتی ہے۔ گوئٹے کے تخیل کی بے کرانی سے آشنا ہونے کے بعد مجھ پر اپنے تخیل کی تنگ دامنی مکتشف ہو گئی۔

عقلِ انسانی
عقلِ انسانی، فطرت کی جانب سے کود انتقادی کی ایک کوشش ہے۔\

خیرات کی معاشیات
مخیر انسان دراصل غیر مخیر کی مدد کرتا ہے، نہ کہ محتاج کی۔ کیونکہ جو کچھ کسی محتاج کو دیا جاتا ہے وہ فی الواقع اُن ‏لوگوں کو دیا جاتا ہے جو محتاجوں کو کچھ نہیں دیتے۔ اس طرح غیر مخیر انسان فیض رسانی سے بے نیاز رہتا ہے اور ‏مخیر انسان اس کا بدلہ چکاتا ہے۔ یہ ہے خیر کی معاشیات۔

خدا کا وجود
میرے احباب مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں: "کیا تم خدا کے وجود پر ایمان رکھتے ہو؟"۔ میرا کیال ہے کہ جواب دینے سے پہلے، مجھے یہ حق حاصل ہے کہ اس سوال میں جو کلمات استعمال ہوئے ہیں، ان کا مطلب معلوم کر لوں۔ اگر میرے احباب اپنے سوال کا جواب چاہتے ہیں تو انھیں پہلے یہ واضح کر دینا چاہیے کہ "خدا"، "وجود" اور "ایمان" خصوصاً اول الذکر دو کلموں﴾ سے اُن کی کیا مراد ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں ان کلمات کو نہیں سمجھتا۔ اور جب کبھی میں اُن سے جرح کرتا ہوں تو یہ دیکھتا ہوں کہ میری طرح وہ بھی نہیں سمجھتے۔

ایک مکالمہ
دل: "یہ امر مطلق یقینی ہے کہ خدا وجود رکھتا ہے۔"
عقل: "لیکن عزیز من! 'وجود' تو میرے مقرلات میں سے ہے اور تمھیں اس کے استعمال کا کوئی حق نہیں۔"
دل: "یہ تو اور بھی اھا ہے، ارسطوے من!۔"

پِندار کی تسکین
پِندار کی تسکین میں ہمارے لیے ایک معاشی پہلو بھی ہے۔ آپ مجھے ہسپتال اسسٹنٹ کے بجائے سب اسسٹنٹ سرجن کہیں تو میں بالکل مطمئن ہو جاؤں گا، خواہ آپ میری تنخواہ میں کوئی اضافہ نہ کریں۔

تلخ نفسیات
ایک تلخ نفسیاتی حقیقت کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ آپ اپنی مہم میں ناکام رہے اور اب آپ اپنے گھر سے دور، دیارِ غیر میں قسمت آزمائی کے خواہاں ہیں۔ یہ بات نہیں کہ ناکامی نے آپ کے عزائم میں ایک نئی تحریک پیدا کر دی ہے، بلکہ خاص وجہ یہ ہے کہ آپ ان لوگوں سے روپوش ہونا چاہتے ہیں جو آپ کی ناکامی کے عینی شاہد ہیں۔

یقین کی قوت
یقین ایک عظیم قوت ہے۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ میرے ایک نظریے پر کسی شخص کو یقین آ گیا ہے تو اس نظریے کی صداقت پر میرا اپنا اعتقاد بے انتہا بڑھ جاتا ہے۔

اسلام کا تصور خدا
عیسائیت نے خدا کی رحمت و شفقت پر زور دیا ہے اور اسلام نے قادرِ مطلق خدا کا تصور پیش کیا ہے۔ ہم ان دو تصورات میں کیسے محاکمہ کریں؟ میرا خیال ہے کائنات اور نوعِ انسانی کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان میں سے کون سا تصور صحیح تر ہے۔ میں تاریخ میں خدا کی رحمت و شفقت سے زیادہ اس کی قدرت کا ظہور دیکھتا ہوں۔ میری مراد یہ ہے کہ تاریخی تجربے کی بنا پر خدا کو قادرِ مطلق کہنا زیادہ مناسب ہے۔

ہیگل کا نظامِ فلسفہ
ہیگل کا نظامِ فلسفہ نثر میں ایک رزمیہ ہے۔

۱۵ مئی ۱۹۱۰ء
کل صبح چار بجے کے قریب میں نے کرۂ ارض کے اس عطیم الشان زائر کو دیکھا جو "ہیلی کا دم دار تارا" کہلاتا ہے۔ خلائے بسیط کا یہ پُر شکوہ شناور پچھتر برس میں ایک مرتبہ ہماری فضائے آسمانی پر نمودار ہوتا ہے۔ اب میں دوبارہ اس کا مشاہدہ صرف اپنے اخلاف کی آنکھوں سے کر سکوں گا۔ میری ذہنی کیفیت بالکل انوکھی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی شے اپنی ناقابلِ بیان وسعتوں کے ساتھ میرے تنگ نائے وجود میں سما گئی ہے۔ تاہم اس خیال نے کہ میں اس آوارہ مسافر کو دوبارہ نہیں دیکھ سکتا، مجھے اپنی ہیچ مقداری کی اندوہ ناک حقیقت کا احساس دلایا۔ میرے تمام ولوے اس لمحے میں سرد پڑ گئے۔

اقسامِ حکومت
الیگزنڈر پوپ کہتا ہے: "مختلف اقسامِ حکومت کے بارے میں لڑنا جھگڑنا احمقوں کا شیوہ ہے۔" میں اس سیاسی فلسفے سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ میری رائے میں حکومت خواہ جس قسم کی ہو، وہ بہر صورت قومی کردار کے متعین کرنے والے عوامل میں سے ہے۔ سیاسی اقتدار کا زوال، قومی کردار کے حق میں بھی تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ مسلمانانِ ہند اپنے سیاسی زوال کے ساتھ ہی بری تیزی سے اخلاقی انحطاط میں مبتلا ہو گئے۔ دنیا کی تمام مسلم قوموں میں، کردار کے لحاظ سے شاید ان کا مقام سب سے پست ہے۔ اس ملک میں اپنی عظمتِ رفتہ کی تحقیر میرا مقصد نہیں، کیونکہ اپنےعوامل کے بارے میں جو بالآخر قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں، میں اپنے تقدیر پرست ہونے کا اعتراف کرتا ہوں۔ سیاسی قومت کی حیثیت سے شاید اب ہماری ضرورت باقی نہیں، لیکن ہمارا ایمان ہے کہ خدا کی وحدتِ مطلق کے شاہدِ واحد کی حیثیت سے ہمارا وجود اب بھی دنیا کے لیے ناگزیر ہے۔ اقوامِ عالم میں ہماری اہمیت خالص شواہداتی ہے۔

شاعری اور منطقی صداقت
شاعری میں منطقی صداقت کی تلاش فضول ہے۔ تخیل کا نصب العین حسن ہے، نہ کہ صداقت۔ کسی شاعر کی عظمت کے ثبوت میں اس کے کلام کے وہ نمونے پیش نہ کیجیے جو آپ کی رائے میں سائنسی صداقت کے ترجمان ہیں۔

شخصیت کی بقا
شخصیت کی بقا کوئی کیفیت نہیں بلکہ ایک طریقِ عمل ہے۔ میرا خیال ہے کہ روح و بدن کی تفریق نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کئی مذہبی نظام اسی باطل تفریق پر مبنی ہیں۔ انسان اصلاً ایک توانائی، ایک قوت یا قوتوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کے عناصر کی ترتیب میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ ان قوتوں کی ایک مخصوص ترتیب کا نام شخصیت ہے۔ یہاں اس سے کوئی بحث نہیں کہ آیا یہ ترتیب محض اتفاقی ہے۔ میں اسے فطرت کے حقائق میں سے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہوں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کیا قوتوں کی یہ مخصوص ترتیب جو ہمیں اتنی عزیز ہے، بعینہ قائم رہ سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ قوتیں جس طرح زندہ، صحت مند شخصیت میں عمل پیرا ہیں، اسی رخ پر ان کا عمل جاری ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات ممکن ہے۔ انسانی شخصیت کو ایک دائرہ فرض کیجیے اور یوں سمجھیے کہ قوتوں کی ایک خاس ترتیب کے نتیجے میں ایک معین دائرہ تشکیل پاتا ہے، اور ان کی ترتیب میں خلل پیدا ہونے سے وہ دائرہ مٹ جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دائرے کے تسلسل کو ہم کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ بظاہر اس کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو کچھ اس طرح تقویت پہنچائیں کہ اس کے قوائے ترکیبی کو اپنے مقررہ معمول کے مطابق عمل کرنے میں مدد ملے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ فعلیت کی ان تمام صورتوں سے دست بردار ہو جائیں جو شخصیت کو تحلیل کونے پر مائل ہوں، مثلاً عجز و انکسار، قناعت، غلامانہ تابعداری وغیرہ۔ ان کے برخلاف بلند حوصلگی، عالیٰ ظرفی، سخاوت اور اپنی روایات و قوت پر جائز فخر، ایسی چیزیں ہیں جو شخصیت کے احساس کو مستحکم کرتی ہیں۔
شخصیت انسان کا عزیز ترین سرمایہ ہے، لہٰذا اسی کو خیر مطلق قرار دینا چاہیے اور اپنے تمام اعمال کی قدر و قیمت کو اسی معیار پر پرکھنا چاہیے۔ خوب وہ ہے جو شخصیت کے احساس کو بیدار رکھے اور ناخوب وہ ہے جو شخصیت کو دبانے اور بالآخر اسے ختم کر دینے کی طرف مائل ہو۔ اگر ہم وہ طرزِ زندگی اختیار کریں جس سے شخصیت کو تقویت پہنچے، تو دراصل ہم موت کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ موت جس کی ضرب سے ہماری شخصیت کی اندرونی قوتوں کی ترتیب گر بڑ ہو جاتی ہے۔ پس شخصیت کی بقا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ اس کے حصول کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ یہ خیال جو یہاں پیش کیا گیا، دور رس نتائج کا حامل ہے۔ کاش اس نقطۂ نظر سے اسلام، بدھ مت اور عیسائیت کی تقابلی حیثیت پر بحث کرنے کا مجھے موقع میسر آتا، لیکن بدقسمتی سے اس مسئلے کی تفصیلات کا جائزہ لینے کی مجھے فرصت نہیں۔

تاریخ
تاریخ ایک قسم کی اطلاقی اخلاقیات ہے۔ اگر اخلاقیات، دیگر علوم کی طرح، ایک تجرباتی علم ہے تو اسے انسانی تجربے کے انکشافات پر مبنی ہونا چاہے۔ اس نظریے کے اعلانِ عام سے یقیناً ان لوگوں کے احساسات کو بھی صدمہ پہنچے گا جو اخلاقی امور میں بڑے کٹر پن کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کا عام برتاؤ تاریخ کے تجربات و تعلیمات سے متعین ہوتا ہے۔

مابعدالطبیعیات
مجھے اعتراف ہے کہ مابعدالطبیعیات سے میں کچھ اُکتا سا گیا ہوں۔ لیکن جب کبھی لوگوں سے بحث کرنے کا اتفاق ہوتا ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دلائل ہمیشہ ایسے قضیوں پر مبنی ہوتے ہیں جنھیں وہ تنقید کے بغیر مان لیتے ہیں۔ لہٰذا میں ان قضیوں کی قدر و قیمت جانچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ مسائل کی تمام عملی صورتوں میں خواہ مخواہ نظری تحقیق کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مابعدالطبیعیات سے مطلق پیچھا چھرا لینا ناممکن ہے۔

عصبیت
تمام قومیں ہم پر عصبیت کا الزام لگاتی ہیں۔ مجھے یہ الزام قبول ہے بلکہ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہم اپنی عصبیت میں حق بجانب ہیں۔ حیاتیات کی زبان میں، عصبیت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اصولِ فردیت، بجائے فردِ واحد کے، ایک جماعت پر عمل کرتا ہے۔ اس مفہوم میں حیات کی تمام صورتیں کم و بیش معتصبانہ ہوتی ہیں، اور اگر انھیں اپنے اجتماعی وجود کی کچھ پروا ہے تو انھیں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ ساری قومیں معتصب ہیں۔ کسی انگریز کے مذہب پر تنقید کیجیے تو اس پر کوئی اثر نہ ہو گا، لیکن ذرا اس کی تہذیب، اس کے ملک یا عملی سرگرمیوں کے کسی دائرے میں اس کے قومی شعار پر نکتہ چینی کیجیے تو اس کا اندرونی تعصب ظاہر ہو جائے گا۔ بات یہ ہے کہ اس کی قومیت کا انحصار مذہب پر نہیں بلکہ ایک جغرافیائی بنیاد یعنی اس کے ملک پر ہے۔ لہٰذا جب آپ اس کے ملک پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو بجا طور پر اس کا جذبہ عصبیت برانگیختہ ہو جاتا ہے۔ ہماری حیثیت اصلاً اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قومیت محض ایک تصور ہے جس کی کوئی مادی بنیاد نہیں۔ حیات و کائنات کے ایک خاس نظریے کے بارے میں ایک طرح کا ذہنی سمجھوتا ہی ہمارا واحد نقطہ اجتماع ہے۔ اب اگر مذہب پر تنقید ہماری عصبیت کو برانگیختہ کر دیتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں ہم اس طرح حق بجانب ہیں جیسے وہ انگریز جس کی تہذیب کو مطعون کیا جائے۔ احساس کی نوعیت دونوں حالتوں میں یکساں ہے، اگرچہ اس کا تعلق مختلف چیزوں سے ہے۔ عصبیت، دینی وطن پرستی ہے اور وطن پرستی، ملکی عصبیت۔

وطن پرستی
اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے۔ وطن پرستی بھی بت پرستی کی ایک نازک صورت ہے۔ مختلف قوموں کے وطنی ترانے میرے اس دعوے کا ثبوت ہیں کہ وطن پرستی ایک مادی شے کی پرستش سے عبارت ہے۔ اسلام کسی صورت میں بت پرستی کو گوارا نہیں کر سکتا۔ بت پرستی کی تمام اقسام کے خلاف احتجاج کرنا ہمارا ابدی نصب العین ہے۔ اسلام جس چیز کو مٹانے کے لیے آیا تھا، اسے مسلمانوں کی سیاسی تنظیم کا بنیادی اصول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پیغمبر اسلامﷺ کا اپنی جائے پیدائش مکہ سے ہجرت فرما کر مدینے میں قیام اور وصال، غالباً اسی حقیقت کی طرف ایک مخفی اشارہ ہے۔

انصاف
انصاف ایک بیش بہا خزانہ ہے، لیکن ہمیں لازم ہے کہ اسے رحم کی دستبرد سے محفوظ رکھیں!

ملی اتحاد
اسلام اور وطن پرستی کے بارے میں جو کچھ پہلے لکھ چکا ہوں، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے ملی اتحاد کا انحصار اس بات پر ہے کہ مذہبی اصول پر ہماری گرفت مضبوط ہو۔ جونہی یہ گرفت ڈھیلی پڑی ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔ شاید ہمارا وہی انجام ہو جو یہودیوں کا ہوا۔ اس گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے ہم کیا کر سکتےہیں؟ کسی معاشرے میں مذہب کا سب سے بڑا امین و محافظ کون ہوتا ہے؟ عورت ہوتی ہے۔ مسلم خواتین کو صحیح مذہبی تعلیم حاصل ہونی چاہے کیونکہ وہی قوم کی حقیقی معمار ہیں۔ میں آزاد نظامِ تعلیم کا قائل نہیں۔ تعلیم بھی دیگر امور کی طرح قومی ضروریات کی تابع ہوتی ہے۔ ہمارے مقاصد کے پیشِ نظر، مسلم بچیوں کے لیے مذہبی تعلیم بالکل کافی ہے۔ ایسے تمام مضامین جن میں عورت کو نسوانیت اور دین سے محروم کر دینے کا میلان پایا جائے، احتیاط کے ساتھ تعلیمِ نسواں کے نصاب سے خارج کر دیے جائیں۔ لیکن ہمارے ماہرین تعلیم اب بھی اندھیرے میں ٹٹول رہے ہیں۔ انھیں اب تک لڑکیوں کا نصابِ تعلیم مقرر کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ شاید مغربی تصورات کی چمک دمک سے ان کی آنکھیں اتنی خیرہ ہو گئی ہیں کہ وہ اسلامیت اور مغربیت کے اس واضح فرق کو بھی نہیں سمجھتے کہ ایک طرف اسلامیت، خالصتاً ایک مجرد تصور یعنی مزہب کی بنیاد پر قومیت کی تعمیر کرتی ہے، دوسری طرف مغربیت ہے جس کے تصور قومیت کی روح ایک مادی شے یعنی ملک ہے۔

جرمن قوم
فطرت کی جُز رسی کے باعث ہر قوم کو ایک وظیفہ خاص تفویض ہوا ہے۔ علمِ انسان کی تنظیم کا فريضہ جرمن قوم کے ذمے ہے۔ حال ہی میں انھوں نے ایک تجارتی مہم کا آغاز کیا ہے، جس سے انھیں سلطنت تو ہاتھ آ سکتی ہے لیکن بلند تر نصیب العین کے بدلے میں تجارت کا یہ دل گیر سودا انھیں مہنگا پڑے گا۔

عہدِ جدید کا ہندو
 کسی قوم کی زندگی میں ایک نئے نصب العین کی ابتدا اور ارتقا کا مشاہدہ انتہائی دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔ یہ نیا نصب العین یسے کیسے ولولے بیدار کرتا ہے، اور کتنی قوت و شدت سے اس قوم کی ساری توانائیاں ایک مشترک مرکز پر مجتمع کر دیتا ہے! عہدِ جدید کا ہندو بالکل ایک عجوبہ ہے۔ میرے نزدیگ اس کا رویہ، سیاسی مطالعے سے زیادہ نفسیاتی تجزیے کا مستحق ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی آزادی کا وہ نصب العین جو اس کے لیے مطلق ایک نئے تجربے کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی روح پر پوری طرح چھا گیا ہے، جس سے اس کی توانائی کے مختلف دھارے اپنی فرسودہ راہوں کا چھوڑ کر فعلیت کی اس نئی جہت میں پوری قوت سے بہہ نکلے ہیں۔ اس تجربے سے گزرنے کے بعد اسے اپنے نقصان کا احساس ہو گا۔ وہ اپنا چولا بدل کر بالکل ایک نئی قوم کی جون میں آ جائے گا— نئی اس اعتبار سے کہ وہ اپنے اندر اُن اسلاف کے اخلاقی تصورات کا کوئی اثر نہ پائے گا، جن کے بلند و پاکیزہ تخیلات بہت سے مضطرف دلوں کے لے دائمی تسکین کا سرچشمہ بنے رہے ہیں۔ اقوامِ عالم، اُمہاتِ تصورات ہیں لیکن تصورات بھی بمرورِ ایام امہاتِ اقوام بن جاتے ہیں۔

حق اور طاقت
فلسفہ حق کی منطق ہے اور تاریخ طاقت کی منطق۔ لیکن موخر منطق کے احکام و اصول، مقدم کے احکام و اصول سے زیادہ معقوم ہوتے ہیں۔

افغانستان کا مستقبل
تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ حائلی مملکتیں عطیم سیاسی وحدتوں کی صورت اختیار کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔ ملک شام، جو سلطنت روما اور اہلِ فارس کے درمیان ایک حائلی مملکت تھا، اسی صورتِ حال سے دو چار رہا۔ لہٰذا افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی دشوار ہے۔

حیات بطور تنقیدِ شعر
آرنلڈ نے شعر کو تنقید حیات قرار دیا ہے لیکن یہ بات بھی یکساں طور پر درست ہے کہ خود حیات تنقیدِ شعر ہے۔

یورپی عیسائیت
فکرِ انسانی کے دائرے میں حضرت محمدﷺ، مہاتما بُدھ اور کانٹ غالباً عظیم ترین انقلابی تھے۔ عملِ کے میدان میں نپولین کی شخصیت لاثانی ہے۔ میں حضرت عیسٰیؑ کو دنیا کے انقلابیوں میں شمار نہیں کرتا کیونکہ انھوں نے جس تحریک کا آغاز کیا وہ جلد جاہلیتِ قبلِ مسیح کی نذر ہو گئی۔ میرے نزدیک یورپی عیسائیت سامی الٰہیات کی زبان میں جاہلیتِ قدیمہ کے ایک ناقص ترجمے سے زیادہ کچھ نہیں۔

حضرت عیسیٰؑ اور اسپینوزا
نسلِ یہود نے صرف دو عظیم انسان پید اکیے ہیں: عیسیٰؑ اور اسپینوزا۔ دونوں خدا کے اوتار تھے؛ اول الذکر بیٹے کے روپ میں اور ثانی الذکر کائنات کے روپ میں۔ اسپینوزا، اپنی نسل کے اس عظیم تریم معلم کا محض ایک تکملہ تھا۔

ارسطو
ارسطو کے لیے میرے دل میں بغایت عقیدت و احترام کے جذبات ہیں۔ نہ صرف اس لیے کہ میں ﴿بیسویں صدی کا انسان ہونے کی حیثیت سے﴾ اپنے اسلاف کے مقابلے میں اسے بہتر طور پر سمجھتا ہوں، بلکہ اس لیے بھی کہ ا نے میری ملت کے خیالات پر زبردست اثر ڈالا۔ لیکن افلاطون کے نظریۂ اعیان پر اس کی تنقید میں ناسپاسی کا جو شائبہ نظر آتا ہے، وہ مجھے اس کے مکمل استحسان سے باز رکھتا ہے۔ اپنے استاد کے نظریات پر اس کی نکتہ چینی میں صداقت کا جو عنصر ہے، اس سے مجھے انکار نہیں لیکن جس ذہنیت سے وہ ان کا جائزہ لیتا ہے، اس سے مجھے نفرت ہے۔

نطشے کا جنوں
 انسان کی فطرت عجیب تضادات کا مجموعہ ہے۔ اگر میں کسی طوائف سے شادی کر لوں تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قسم کے ناپاک رشتوں پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اگر آپ میرے اس فعل کو حرف و حکایت کا موضوع بنائیں تو مجھے برا لگے گا۔ یعنی جس بات کو میں عملاً روا رکھتا ہوں، اسے نظریاتی طور پر مسترد کر دیتا ہوں۔ نطشے کا فلسفہ، کم از کم اخلاقیات کے دائرے میں، یورپ کے طرز عمل کو عقلی جواز فراہم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ لیکن اشرافیہ کا یہ عظیم پیغمبر یورپ بھر میں مردود قرار دیا گیا ہے۔ بہت کم لوگ اس کے جنوں کے رمز آشنا ہیں۔

اورنگ زیب
اورنگ زیب کی سیاسی فطانت بغایت ہمہ گیر تھی۔ اس ملک کی مختلف قومیتوں کو ایک عالمگیر سلطنت کے تصور میں شامل کر لینا گویا اس کی زندگی ا واحد مقصد تھا۔ لیکن اس سامراجی وحدت کے حصول میں اس نے غلطی سے اپنے غیر متزلزل عزم و ہمت کے تقاجوں کو ملحوظ رکھا، جس کے پسِ پشت سیاسی ارتقا میں وقت کے پہلو کو نظر انداز کر کے اس نے ہندوستان کی منتشر اور بے ربط سیاسی وحدتوں کو اپنی ہی زندگی میں مجتمع کر دکھانے کی توقع پر ایک لامتناہی مہم شروع کر دی۔ جس طرح سکندر پوے ایشیا پر یونان کو مسلط کرنے میں ناکام رہا۔ اسی طرح وہ بھی ہندوستان بھر کو پرچمِ اسلام کے نیچے نہ لا سکا۔ انگریز، قدیم اقوام کے سیاسی تجربات سے پوری طرح مسلح ہو کر آیا تھا۔ اس کا صبر و تحمل اور کچھوے کا سا استقلال وہاں کامیاب رہا۔ جہاں اورنگ زیب کی جلد باز فطانت ٹھوکر کھا کر رہ گئی تھی۔ سیاسی فتح لازماً اتحاد کے ہم معنی نہیں۔ علاوہ ازیں سابقہ مسلم خاندانوں کی تاریخ نے اورنگ زیب پر یہ واضح کر دیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا اقتدار اس ملک کے باشندوں کی خیر خواہی پر اتنا منحصر نہیں ﴿جیسا کہ اس کے جدِ اکبر نے سوچا تھا﴾، جتنا کہ خود حکمران قوم کی اپنی طاقت پر مبنی ہے۔ لیکن اپنے گہرے سیاسی شعور کے باوجود وہ اپنے اجداد کے کرتوتوں کے نتائج کو مٹا نہ سکا۔ سیوا جی، اورنگ زیب کے عہد کی پیداوار نہیں تھا۔ اس کا وجود ان معاشرتی اور سیاسی عوامل کا رہین منت ہے جو اکبر کی حکمت عملی سے ظہور میں آئے۔ اورنگ زیب کا سیاسی فہم و ادراک صائب ہونے کے باجود، بعد از وقت ثابت ہوا۔ تاہم اس سیاسی بصیرت کی اہمیت کے پیش نظر، اسے ہندوستان میں مسلم قومیت کا بانی قرار دینا چاہیے۔ مجھے یقین ہےکہ آیندہ نسلیں میرے اس قول کی صداقت کو تسلیم کریں گی۔ انگریز حکمرانوں میں سب سے پہلے لارڈ کرزن نے ہندوستان میں انگلستان کے اقتدار کے بارے میں حقیقت شناسی کا ثبوت دیا۔ ہندو قومیت، بےجا طور پر اس کی پالیسی سے منسوب کی جاتی ہے۔ زمانہ یقیناً یہ بتا دے گا کہ ہندو قومیت کا وجود لارڈ رپن کی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا یہ بات واضح ہو گئی کہ سیاسی مقصد اور سیاسی ادراک میں مغل فرماں روا اور انگریز حکمران، دونوں متفق ہیں۔ مجھے اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ انگریز مورخ کیوں اورنگ زیب کو معطون کرتا ہے، جس کے سامراجی نصب العین کی پیروی خود اس کے اہلِ ملک کرتے رہے ہیں اور جس کے سیاسی ادراک کی وہ توثیق کر چکے ہیں۔ اورنگ زیب کا سیسی طریق کار یقیناً بہت بھدا تھا لیکن جس عہد سے اس کی زندگی اور سے کے کارنامے وابستہ ہیں، اسی کے نقطۂ نظر سے اس طریق کار کی اخلاقی حیثیت کو پرکھنا چاہیے۔


فتحِ ایران
اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ تاریخِ اسلام کا اہم ترین واقعہ کون سا ہے تو وہ میں بے تامل کہوں گا: "فتحِ ایران"۔ نہاوند کی جنگ نے عربوں کو ایک حسین ملک کے علاوہ ایک قدیم تہذیب بھی عطا کی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ ایک ایسی قوم سے روشناس ہونے جو سامی اور آریائی عناصر کے امتزاج سے ایک نئی تہذیب کو جنم دے سکتی تھی۔ ہماری مسلم تہذیب، سامی اور آریائی تصورات کی پیوندکاری کا حاسل ہے۔ گویا یہ ایسی اولاد ہے جسے آریائی مان کی نرمی و لطافت اور سامی باپ کے کردار کی پختگی و صلابت ورثے میں ملی ہے۔ فتحِ ایران کے بغیر اسلامی تہذیب یک رخی رہ جاتی۔ فتحِ ایران سے ہمیں وہی کچھ حاسل ہو گیا جو فتحِ یونان سے رومیوں کو ملا تھا۔

غالب
میری رائے میں مرزا غالب کا فارسی کلام، شاید مسلمانانِ ہند کی جانب سے وہ واحد پیشکش ہے، جس سے ملت کے عام ادبی سرمائے میں کوئی مستقل اضافہ ہوا ہے۔ غالب یقیناً ان شعرا میں سے ہے، جن کا ذہن اور تخیل انھیں مذہب اور قومیت کے تنگ حدود سے بالا تر مقام عطا کرتا ہے۔ غالب شناسی کا حق ادا ہونا ابھی باقی ہے۔


تولیتِ اقوام
کسی بدیسی حکومت کا مطلق بے لوث ہونا ممکن نیں۔ تاہم اقوام کی تولیت ضروری ہے۔ بعض اوقات اس تولیت و تربیت کے معاوضے میں قوموں کو نانِ شبینہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اہل میکسیکو کو ہسپانیہ والوں کے ماتحت تربیت کے شدید مراحل سے گزرنا پڑا، تب کہیں جا کر وہ اپنا انتظام سنبھالنے کے لائق ہو سکے۔


نظم کی مقبولیت
کسی نظم کی مقبولیت اس بات پر منحصر نہیں کہ اس میں منطقی صداقت کا اظہار کس حد تک ہوا ہے۔ گولڈ سمتھ کی نظم "ڈیزرٹڈ ولیج" (Deserted Village) بغایت مقبول ہے، اگرچہ یہ نظم سائنسی عدمِ صحت اور معاشی استدلال کی لغویت سے پُر ہے۔


ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل اور ورڈزورتھ
میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، مرزا غالب، عبدالقادر بیدل، اور ورڈزورتھ سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیا کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمو لینے کے باوجود، اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں، اور ورڈزورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچا لیا۔

حکایات
زندگی کی عمیق ترین حقیقتوں کو سادہ حکایتوں اور تمثیلوں کی صورت میں واضح کرنے کے لیے گیر معمولی فطانت درکار ہے۔ شیکسپیئر، مولانا جلال الدین رومی اور حضرت عیسیٰؑ اس نادر الوجود فطانت کی صرف تین مثالیں ہیں۔


عالمی تہذیب میں یہود کا حصہ
عالمی تہذیب کے ارتقا میں یہودی عنصر کی مقدار اتنی ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہود نے شاید سب سے پہلے کاروباری اخلاق کے اصول وضع کیے، جن کا خلاصہ تصورِ دیانت ہے۔

مازنی
مازنی کا صحیح دائرۂ عمل ادب تھا، نہ کہ سیاست۔ سیاسیات سے اس کے شغف نے اطالیہ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا دنیا کو نقصان پہنچایا۔


مابعدالطبیعیات پر سائنس کا انحصار
جدید سائنس کو مابعدالطبیعیات پر خندہ زن نہ ہونا چاہیے، کیونکہ وہ لیبنیز جیسا ماہر مابعدالطبیعیات ہی تھا جس نے سب سے پہلے سائنس کو مادے کا عملی تصور بخشا۔ اس کا قول ہے کہ "مادہ اصلاً قوتِ مزاحمت ہے۔" مابعدالطبیعیات سے یہ تصور مستعار لے کر سائنس نے اس "قوت" کے رویے کے مطالعے کے لے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ ظاہر ہے کہ سائنس اسے بذاتِ خود دریافت نہ کر پاتی۔


جدید سائنس اور جمہوریت
تصورات کا ایک دوسرے پر عمل و ردِ عمل ہوتا ہے۔ سیاست میں انفرادیت پرستی کی بڑھتی ہوئی رو، معاصر سیائنسی فکر پر اثر انداز ہوئے بغیر نہ رہی۔ فکرِ جدید، کائنات کو زندہ جوہروں کی ایک جمہوریہ قرار دیتی ہے۔
تاریخی پسِ منظر سے تصورات کا رشتہ فکری ارتقا کو انسانی فعلیت کے دیگر پہلوؤں سے منقطع نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ فلسفہ کی کتابیں ہمیں یہ تو بتاتی ہیں کہ مختلف قوموں نے کیا سوچا ہے لیکن اُن مختلف معاشرتی اور سیاسی اسباب و عوامل کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتیں، جن سے فکرِ انسانی کا کردار متعین ہوا ہے۔ فلسفے کی جامع تاریخ مرتب کرنا یقیناً ایک دشوار کام ہو گا۔ لیوتھر کی تحریک اصلاح کے قیمتی مضمرات کی مکمل وضاحت و صراحت کرنا محض ایک عالمِ دینیات کے بس کی بات نہیں۔ ہمارا یہ رویہ رہا ہے کہ عظیم تصورات کو انسان کی ذہنی فعلیت کے عمومی دھارے سے علیحدہ کر دیتے ہیں۔


تعددِ ازدواج
تعددِ ازدواج کی رسم کا یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ اسے ایک رسمِ عام کی حیثیت دی جائے۔ بعض دشواریوں کے حل کے طور پر اسے جائز قرار کیا گیا تھا۔ لیکن وہ دشواریاں صرف مسلم معاشرے کے لیے مخصوص نہیں۔ اسلام نے جن چیزوں کو جائز قرار دیا ہے ان میں سے مکروہ ترین شے طلاق ہے۔ تعددِ ازدواج کو کچھ اس لیے بھی گوارا کیا گیا کہ طلاق ایک عام معاشرتی رسم نہ بن جائے۔ طلاق اور تعددِ ازدواج دو معاشرتی خرابیاں ہیں ﴿اس صورت میں کہ عام ہو جائیں﴾ جن میں سے موخرالذکر یقیناً کم تر ہے۔ لیکن طلاق سے اجتناب ہی شاید اس رسم کا واحد جواز نہیں، بلکہ اس میں کسی حد تک مرد کی فطرت کی رعایت بھی ملحوظ رکھی گئی ہے۔ اس قانون کی رُو سے وہ اپنے فطری میلانِ تنوع کو بھی پورا کر سکتا ہے اور اس شوق و رغبت کے نتیجے میں جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان سے بھی روگردانی نہیں کر سکتا۔ انگلستان میں اس ذوقِ تنوع کی تکمیل کے مواقع تو بعض لوگوں کو میسر ہیں، لیکن جنسی آزادی کے نتیجے میں جو ذمہ داری کسی فرد پر عائد ہو سکتی ہے، اس سے وہ قانوناً بچ نکلتا ہے۔ ناجائز تعلق سے جو اولاد پیدا ہو، اس کی تعلیم و تربیت سے وہ بری الذمہ ہوتا ہے۔ ایسی اولاد اپنے باپ کی جائیداد کی وارث بھی نہیں ہو سکتی۔ ان قانونی کوتاہیوں کے نتائج بعض اوقات نہایت ہولناک ہوتے ہیں۔ حکومتِ فرانس نے مجبوراً عصمت فروشی کو ایک معاشرتی رواج کے طور پر تسلیم کیا ہے، جسے صحت مند رکھنا حکومت کا ایک قبیح فرض ہے۔ لیکن یک زوجگی کا قبیح ترین پہلو، بیشتر مغربی ممالک میں اُن "فاضل" عورتوں کی کثرت ہے، جنھیں شوہر میسر نہیں آتے اور وہاں مختلف معاشرتی و سیاسی عوامل، ایسی عورتوں کی تعداد میں اضافے کا باعث ہیں۔ وہ مائیں نہیں بن سکتیں اور نتیجۃً پرورشِ اطفال کے بجائے انھیں دیگر مشاغل تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ وہ مجبور ہیں کہ اولاد کے عوض تصورات کو جنم دیں۔ حال ہی میں انھوں نے "ووٹ برائے خواتین" کے ولوہ انگیز تصور کو جنم دیا ہے۔ دراصل یہ "فاضل" خواتین کی ایک کوشش ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ ان کی جانب سے ایک کوشش ہے، کہ سیاستکے میدان میں ان کے لیے دلچسپیاں پیدا کی جائیں۔ اگر کوئی معاشرہ اپنی عورتوں کو پیدائش و پرورشِ اولاد کا موقع نہیں دیتا تو ان کی مصروفیت کے لیے کچھ اور سمانا مہیا ہونا چاہیے۔ یورپ مین حقِ انتخابِ نسواخ کی تحریک، درپردہ ووٹوں کے بجائے شوہروں کی طلب پر مبنی ہے۔ میرے نزدیک تو یہ شور و شغب بے روزگاروں کے ہنگامے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔


جرمن قوم کا روحانی نصب العین
جرمن قوم کے روحانی نصب العین کی آئینہ دار، گوئٹے کی 'فاؤسٹ' ہے، نہ کہ وہ کتابیں جو گلیلیائی ماہی گیر کی تصانیف سمجھی جاتی ہیں، اور اہلِ جرمیے اس حقیقت کا پورا شعور رکھتے ہیں۔


دشمنوں سے محبت
محبت اکسیر سے بڑھ کر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکسیر ادنیٰ دھاتوں کو سونا بنا دیتی ہے۔ لیکن محبت تمام سفلی جذبات کو خود اپنے پاکیزہ وجود میں تبدیل کر دیتی ہے۔ حضرت عیسیٰؑ اور مہاتما بدھ نے محبت کی ماہیت کا بالکل صحیح ادراک کیا۔ لیکن اخلاقی عینیت کے جوش میں وہ حقائقِ زندگی کو انظر انداز کر گئے۔ انسان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے دشمنوں سے محبت کرے، بڑی زیادتی ہے۔ ممکن ہے کہ بعض غیر معمولی افراد نے اپنی زندگی میں اس مقولے کو اپنایا ہولیکن قومی اخلاق کے اصول کے طور پر یہ مقولہ باطل ثابت ہوتا ہے۔ اگر اہلِ جاپان اُن اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا ہوتے جو ان کے مذہب سے منسوب ہیں تو جنگِ روس و جاپان کے نتائج بالکل مختلف ہوتے۔

تصورات
افراد اور اقوام فنا پذیر ہیں لیکن تصورات، جو ان کی اولادِ معنوی ہیں، ہرگز فنا نہیں ہوتے۔


سفید فام قوموں کا "بارِ امانت"
ایک مرتبہ کسی انگریز نے مجھ سے کہا کہ وہ یہودیوں سے نفرت کرتا ہے، کیوں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا کی برگزیدہ قوم ہیں۔ اور یہ ایسا عقیدہ ہے جس میں دیگر اقوام کی تحقیر مضمر ہے، بلکہ یہی اس تحقیر کا جواز بھی ہے۔ وہ انگریز بھول گیا کہ "سفی فام قوموں کا بارِ امانت" والا مشہور فقرہ، ایک مختلف پیرائے میں، اسی قسم کے احساسِ تفوق کی غمازی کرتا ہے۔


گوئٹے کا ڈراما 'فاؤسٹ'
گوئٹے نے ایک معمولی قصے کو لیا اور اس میں صرف اُنیسویں صدی ہی نہیں بلکہ نسلِ انسانی کے تمام تجربات سمو دیے۔ ایک معمولی قصے کو انسان کے اعلیٰ ترین نصب العین کے ایک منظم و مربوط اظہار میں ڈھال دینا، الہامی کارنامے سے کم نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بے ہنگم ہیولیٰ سے ایک حسین کائنات تخلیق کر دی جائے۔

ملٹن
ملٹن کی کٹر عیسائی الٰہیات، ہمارے عہد کے تخیل کو متاثر نہیں کر سکتی۔ بہت کم لوگ ملٹن کا مطالعہ کرتے ہیں۔ والٹیئر کا یہ قول بالکل درست ہے کہ ملٹن کی مقبولیت برابر بڑھتی جائے گی کیوں کہ اسے کوئی پڑھتا ہی نہیں۔ بہرحال ملٹن میں ایک خاص بات ضرور ہے۔ کوئی شاعر اپنے مقصد میں اس سے زیادہ مخلص نہیں گزرا۔ اس کے بلیغ اسلوب کو جو جھوٹے دیوتاؤں کا ایک عطیم الشان حرم ہے، زمانے کے مفلوج ہاتھ کبھی چھو نہ سکیں گے۔


آسکر وائلڈ کی روح
آسکروائلڈ کی روح انگریزی سے زیادہ ایرانی ہے۔


لٹیری قومیں
مسرف انسان فطرت کا منظورِ نظر ہے۔فطرت کو یہ گوارا نہیں کہ چند افرا دکےہاتھوں میں دولت کی کثیر مقدار جمع ہو جائے۔ جب کسی خاندان کا مربی دولت کے انبار لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تواکثر ایسا ہوتا ہے کہ تیسری یا دوسری ہی پشت میں کوئی فضول خرچ نکل آتا ہے اور ساری دولت لٹا کر ٹھکانے لگا دیتا ہے۔ اگر فطرت کے یہ کارندے نہ ہوں تو گردشِ زر کا سلسلہ رک جائے۔ افراد کی طرح اقوام کے معاملے میں بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ جب کوئی قوم محنت مشقت یا کسی اور ذریعے سے دولت کے ذخیرے جمع کرتی ہے اور اس اکتنازِ زر کے نتیجے میں دنیا کے کاروبار کی گاڑی تھم جاتی ہے، جس کی رفتار مسلسل گردشِ زر پر منحصر ہے، تو لٹیری قومیں نمودار ہوتی ہیں اور مقید دولت کو آزاد کر دیتی ہیں۔ وارن ہیسٹنگز، کلائیو اور محمود غزنوی، ایسی قوموں کے مخصوص نمائندے ہیں جو کاروبارِ عالم کی ترقی میں فطرت کے غیر شعوری کارندوں کی حیثیت سے، معاون ہوتی ہیں۔ وارن ہیسٹنگز کی لوٹ کی صحیح توجیہ و تفسیر ہمیں تاریخ کے اس باب میں ملے گی جہاں سترھویں اور اٹھارھویں صدی کے یورپی زر کا بیان ہے۔


انسان کا حافظہ
انان کا حافظہ عموماً کمزور ہوتا ہے۔ اُن صدموں کے سوا جو ابنائے جنس سے سے پہنچتے ہیں، اُسے بہت کم باتیں یاد رہتی ہیں۔


مسلم ممالک میں تفریحات
مسلم ممالک میں تفریحی وسائل مفقود ہیں— نہ تھیئٹر ہیں، نہ سرود خانے، نہ رقص گاہیں— "خس کم جہاں پاک"۔ تفریحات کا شوق ایک مرتبہ پورا ہو جائے تو جلد ہی ایسا چسکا لگ جاتا ہے جو ناقابلِ تسکین ہوتا ہے۔ یورپی ممالک کو تجربہ اس افسوس ناک حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔ مسلم ممالک میں تفریحات کا فقدان، افالس یا تقویٰ یا حسِّ لُطف اندوزی کے کند ہو جانے کی علامت نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان ممالک کے لوگ اپنے گھروں کے پُر سکون گوشوں میں کافی تفریح اور لطف حاصل کر لیتے ہیں۔ یورپی نقاد کو مسلمانوں کی خانگی زندگی کی تفضیح و تنقیص میں اتنی جلد بازی سے کام نہ لینا چاہیے۔ میں مانت اہوں کہ بیرونِ خانہ تفریحات سے بے نیازی، خانگی خوش وقتی کا لازمی نتیجہ نہیں اور نہ یہ کہ تفریحات کا شوق لازماً خانگی زندگی کی ناخوشگواری کا مظہر ہے۔


اقلیتوں کی قوت
دنیا کی تقدیر کا فیصلہ خاص طور سے اقلیتوں کے ہاتھ رہا ہے۔ یورپت کی تاریخ اس دعوے کی صداقت پر کافی شہادت پیش کرتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے، اس کا کوئی نفسیاتی سبب ضرور ہے کہ اقلیتیں ایک قوی عاملکی حیچیت سے تاریخِ انسانیت پر کیوں اثر انداز رہی ہیں۔ کردار ہی وہ غبیر مرئی قوت ہے جس سے قوموں کے مقدر متعین ہوتے ہیں اور اکثریتی جمایت میں کردار کی استوری ناممکن ہے۔ یہ تو ایک قوت ہے۔ جتنا ہی اسے تقسیم کیا جائے، اسی قدر یہ کمزور تر ہو جاتی ہے۔


لا ادریت اور مذہب
بعض لوگ لا ادری وہتے ہوئے بھی مذہبی رحجانِ طبع رکھتے ہیں۔ فرانسیسی مستشرق ریناں کی لا ادریت کے باوجود، اس کے ذہن کی بنادی مذہبی افتاد نمایاں ہے۔ لوگوں کے طرزِ فکر سے ان کے کردار کے متعلق رائے قائم کرنے میں ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔


عربی شاعری
"میرے چچا کا بیٹا ایک چٹان کے سرے پر چلا جا رہا ہے۔ کیا میں پیچھے سے جا کر اُسے سنگلاخ واسی میں دحکیل دوں کہ اس کی زندگی کے اُفق پر بھر نئی سحر طلوع نہ ہو؟ اس کے رویے کے پیشِ نظر میرا یہ عمل بالکل روا ہو گا۔ لیکن ایسا کرنا کمینہ پن، اور شیوۂ مردانگی کے خلاف ہے۔"
ایک عرب شاعر 'حماسہ' میں ﴿؟﴾ یوں اظہارِ خیال کرتا ہے۔ یہ ٹکڑا عربی شاعری کا ایک نمائندہ نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ دنیا کی کوئی شاعری، اتنی سادہ، دوٹوک اور مردانہ جذبات سے اتنی لبریز نہیں ہے۔ عرب شاعر حقیقت سے نہایت گہرا رابطہ رکھتا ہے۔ رنگینی کلام کی آب و تاب سے بے نیاز ہے۔ عرب شعرا میں 'متنبی' ایک استثنا ہے، لیکن وہ صرف زبان کی حد تک عرب شاعر ہے؛ معنوی طور پر وہ کلیۃً ایرانی ہے۔


حیرت
افلاطون کا قول ہے کہ حیرت تمام علوم کی ماں ہے۔ مرزا عبدالقادر بیدل حیرت کو ایک مختلف زاویۂ سے دیکھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں
نزاکت ہاست در آغوشِ میخانۀ حیرت
مژہ برہم مزن تانشکنی رنگِ تماشا را
افلاطون کے نزدیک حیرت اس لیے قابلِ قدر ہے کہ اس سے فطرت کے بارے میں ہمارے تجسس کی تحریک ہوتی ہے۔ بیدل کے لیے حیرت، اپنے ذہنی نتائج و اثرات سے قطعِ نظر، فی نفسہ قابلِ قدر ہے۔ اس خیال کا اظہار بیدل کے اس شعر سے زیادہ حسیں تر پیرایے میں ممکن نہیں۔


مسلمانانِ ہند کے لے بحرانی دور
مذہبی تصورات کے ارتقا کے لحاظ سے کسی قوم کی ترقی کے تین خاص مراحل ہیں:
۱۔ روایتی مذہب کے بارے میں لاادری رویہ— کورانہ عقائد کے خلاف بغاوت۔
۲۔ بالآخر ایک گراں قدر معاشرتی قوت کی حیثیت سے مذہب کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور پھر دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے— یعنی مذہب اور عقل میں مفاہمت کی کوشش۔
۳۔ اس کوشش کا لازمی نتیجہ اختلافِ رائے ہے جس سے قومی وجود کے لیے ہولناک نتائج رونما ہو سکتے ہیں۔ اگر اختلاف رائے مخلاصانہ نہ ہو ﴿اور بدقسمتی سے عموماً نہیں ہوتا﴾ تو بدترین انتشار کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ مسلمانانِ ہند اب اس تیسرے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ یا شاید جزواً دوسرے اور جزواً تیسرے مرحلے میں ہیں۔ ہماری قومی زندگی میں یہ دور، میرے نزدیک انتہائی نازک ہے۔ لیکن یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ مختلف نوعیت کی کچھ ایسی قوتیں بھی کارفرما ہیں جو قومی اتحاد کے تحفظ کی طرف ائل ہیں— اگرچہ مجھے اندیزہ ہے کہ ان کا اثر محض عارضی ہو گا۔


تاریخ کی توجیہ
تاریخ محض انسانی محرکات کی توجیہ و تفسیر ہے۔ لیکن جب ہم نے اپنے معاصرین بلکہ روزمرہ زندگی میں گہرے دوستوں اور رفیقوں کے محرکات کی بھی غلط توجیہیں کر بیٹھتے ہیں تو جو لوگ ہم سے صدیوں پہلے گزرے ہیں، ان کے محرکات کی صحیح تعبیر و توجیہ اُس سے کہیں زیادہ دشوار ہے۔ لہٰذا تاریخ کی روداد کو بڑے احتیاط سے تسلیم کرنا چاہیے۔


مساوات
کسی تصور کی عملی قوت، اس شخصیت کی توانائی پر منحصر ہے جس میں وہ تصور متشکل ہوتا ہے۔ مہاتمابدھ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمد ﷺ، تصورِ مساوات کے عظیم پیکر ہیں۔ تاہم اسلام دنیا اور واحد قوت ہے جو اب بھی مساوات کے حق میں کوشاں ہیں۔


اقدارِ اشیا
خدا نے اشیا تخلیق کیں اور انسان نے اشیا کی اقدار۔ نطشے کہتا ہے کہ کسی قوم کی بقا کا انحصار مسلمل تخلیقِ اقدار پر ہے۔ اشیا پر صنعتِ ایزدی کی مہر ثبت ہے لیکن اشیا کی معنویت کلیتہً انسانی ہے۔


تعلیم کی غایت
آئینِ حیات کیا ہے؟ جہدِ مسلسل۔ پھر تعلیم کی غرض و غایت کیا ہونی چاہیے؟ بداہتہً کشمکش حیات کی تیاری! جو قوم محض ذہنی تفوق کے لیے کوشاں ہے، اپنے اس طرزِ عمل سے اپنی ناتوانائی کا اظہار کرتی ہے۔


خدا قوی ہے
قوت میں صداقت سے زیادہ الوہیت ہے۔ خدا قوی ہے۔ تو بھی اپنے آسمانی باپ کی طرح قوی ہو جا!











ہفتہ، 15 فروری، 2020

تُرکی اور تُرک قوم

تُرکی اور تُرک قوم
تُرک صدر جناب طیب اردگان
تُرک قوم کا مسلمانوں کی تاریخ میں ایک نمایاں اور یادگار کِردار  ہے۔ آج بھی دنیا میں اگر کوئی قوم و ملک اور اس کا حکمران اسلام اور مسلمانوں کے لئے دردِ دل رکھتا ہے تو وہ تُرکی ہےجس کے صدر جناب طیب اردگان ہیں۔عالم اسلام کے دلوں میں بسنے والےاور مظلوم مسلمانوں کے ہر دل عزیز رہنما محترم طیب اردگان ہی ہیں۔جناب رجب طیب اردگان  مسلم دنیا کے تمام رہنماؤں سے  مختلف شخصیت اور کردار و سوچ کے مالک ہیں۔سچائی بے باکی اور خلوص و ہمدردی ان کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔عا لم  اسلام سے دلی محبت انہیں پوری دنیا کے  مظلوم  مسلمانوں کی مدد کے لئے بے چین رکھتی ہے۔شام ،فلسطین ،برما ،یمن اور کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم   پرآپ نے ساری دنیاکی توجہ اس ناانصافی کی جانب  کراتے ہوئے نا صرف ان کے حق میں  آواز بلند کی بلکہ شام میں فوری طور پر اپنی مصلح افواج کو  مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم کو روکنے کے لئے روانہ کیا ہے۔پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل میں تُرک قوم اور طیب اردگان کی عزت و مقام جو پہلے ہی بہت زیادہ تھا اس کے بعد اس میں بے انتہا اضافہ ہو گیا ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے  تو غلط نہ ہو گا کہ طیب اردگان کی صورت میں آج امت مسلمہ اور  عا لم اسلام کو ایک لیڈر اور قائد مل گیا ہے۔ایک ایسا قائد اورلیڈر جس کا ماضی اور حال صاف شفاف اور بے داغ ہے۔جس میں جُرات اور قائدانہ صلاحیتیں ہیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ جو عالم اسلام سے دلی محبت اور درد رکھتا ہے اور ان سب سے بڑھ کےیہ کہ دیگر مسلم ممالک کے سیاست دانوں کی طرح کرپٹ ، بدعنوان  اور بے دین نہیں ہے۔ آپ نے حکومت میں آتے ہی سب سے پہلے تمام بیرونی قرضے مختصر مدت میں واپس دے کر اپنے ملک و قوم کو آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بنک جیسے اداروں سے آزاد کرا یا۔آج تُرکی پر ایک پائی کا کوئی بیرونی قرضہ نہیں ہے۔یہ صرف ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ ایسے بے شمار کارنامے ہیں جوآپ نے کئےہیں ۔یہ دیگر مسلمان ملکوں کی حکومتوں کے لئے ایک مثال اور رول ماڈل ہے ۔اللہ ہمارے محبوب لیڈر جناب رجب طیب اردوا ن صاحب کو اپنی پناہ اور حفاظت میں رکھے ۔(امین) پاکستان اور یہاں کے مسلمانوں کے دلوں میں بھی اپنے تُرک بھائیوں کے لئے بے پناہ محبت پائی جاتی ہے۔شاعرِ مشرق محترم جناب ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ بھی تُرک قوم سے خاص محبت رکھتے تھے۔علامہ اقبال ؒ کے کلام میں اس کا ذکر انتہائی خصوصیت سے ملتا ہے۔آپؒ فرماتے ہیں کہ:
اگر عثمانیوں پہ کوہ ِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہے گوہر کی سیرابی

جاری۔۔۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *