جمعہ، 8 فروری، 2019

مجلس شوریٰ


   ابليس کی مجلس شوریٰ

1936ء

ابلیس

يہ عناصر کا پرانا کھيل، يہ دنيائے دوں
ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں!
اس کی  بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں
ميں نے دکھلايا فرنگی کو ملوکيت کا خواب
ميں نے توڑا مسجد و دير و کليسا کا فسوں
ميں نے ناداروں کو سکھلايا سبق تقدير کا
ميں نے منعم کو ديا سرمايہ داری کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں ميں ہو ابليس کا سوز دروں
جس کی شاخيں ہوں ہماری آبياری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں!

پہلا مشير

اس ميں کيا شک ہے کہ محکم ہے يہ ابليسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی ميں عوام
ہے ازل سے ان غريبوں کے مقدر ميں سجود
ان کي فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قيام
آرزو اول تو پيدا ہو نہيں سکتی کہيں
ہو کہيں پيدا تو مر جاتی ہے يا رہتی ہے خام
يہ ہماری سعی پيہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکيت کے بندے ہيں تمام
طبع مشرق کے ليے موزوں يہی افيون تھي
ورنہ 'قوالی' سے کچھ کم تر نہيں 'علم کلام'!
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کيا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تيغ بے نيام
کس کی نوميدی پہ حجت ہے يہ فرمان جديد؟
'ہے جہاد اس دور ميں مرد مسلماں پر حرام!

دوسرا مشير

خير ہے سلطاني جمہور کا غوغا کہ شر
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہيں ہے با خبر!

پہلا مشير

ہوں، مگر ميری جہاں بينی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکيت کا اک پردہ ہو، کيا اس سے خطر!
ہم نے خود شاہی کو پہنايا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبار شہرياری کی حقيقت اور ہے
يہ وجود مير و سلطاں پر نہيں ہے منحصر
مجلس ملت ہو يا پرويز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غير کی کھیتی  پہ ہو جس کی نظر
تو نے کيا ديکھا نہيں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگيز سے تاريک تر!

تيسرا مشير

روح سلطانی رہے باقی تو پھر کيا اضطراب
ہے مگر کيا اس يہودی کی شرارت کا جواب؟
وہ کليم بے تجلی، وہ مسيح بے صليب
نيست پيغمبر و ليکن در بغل دارد کتاب
کيا بتاؤں کيا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز
مشرق و مغرب کي قوموں کے ليے روز حساب!
اس سے بڑھ کر اور کيا ہوگا طبيعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خيموں کی طناب!

چوتھا مشير

توڑ اس کا رومہ الکبرے کے ايوانوں ميں ديکھ
آل سيزر کو دکھايا ہم نے پھر سيزر کا خواب
کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا
'گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب،

تيسرا مشير

ميں تو اس کي عاقبت بينی کا کچھ قائل نہيں
جس نے افرنگی سياست کو کيا يوں بے حجاب

پانچواں مشير
(ابليس کو مخاطب کرکے)

اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار!
تو نے جب چاہا، کيا ہر پردگی کو آشکار
آب و گل تيری حرارت سے جہان سوز و ساز
ابلہ جنت تری تعليم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہيں
سادہ دل بندوں ميں جو مشہور ہے پروردگار
کام تھا جن کا فقط تقديس و تسبيح و طواف
تيری غيرت سے ابد تک سرنگون و شرمسار
گرچہ ہيں تيرے مريد افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہيں ہے اعتبار
وہ يہودی فتنہ گر، وہ روح مزدک کا بروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار
زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہين و چرغ
کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار
فتنہء فردا کی  ہيبت کا يہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہيں کوہسار و مرغزار و جوئبار
ميرے آقا! وہ جہاں زير و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تيری سيادت پر مدار


ابليس
(اپنے مشيروں سے)

ہے مرے دست تصرف ميں جہان رنگ و بو
کيا زميں، کيا مہر و مہ، کيا آسمان تو بتو
ديکھ ليں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
ميں نے جب گرما ديا اقوام يورپ کا لہو
کيا امامان سياست، کيا کليسا کے شيوخ
سب کو ديوانہ بنا سکتی ہے ميری ايک ہو
کارگاہ شيشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر ديکھے تو اس تہذيب کے جام و سبو!
دست فطرت نے کيا ہے جن گريبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہيں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہيں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
يہ پريشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر ميں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم ميں اب تک نظر آتے ہيں وہ
کرتے ہيں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ايام ہے
مزدکيت فتنہ فردا نہيں، اسلام ہے!

(2)

جانتا ہوں ميں يہ امت حامل قرآں نہيں
ہے وہی سرمايہ داری بندہ مومن کا ديں
جانتا ہوں ميں کہ مشرق کی اندھيری رات ميں
بے يد بيضا ہے پيران حرم کي آستيں
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے ليکن يہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع  پيغمبر کہيں
الحذر! آئين  پيغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفريں
موت کا پيغام ہر نوع غلامی کے ليے
نے کوئي فغفور و خاقاں، نے فقير رہ نشيں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے اميں
اس سے بڑھ کر اور کيا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہيں، اللہ کی ہے يہ زميں!
چشم عالم سے رہے پوشيدہ يہ آئيں تو خوب
يہ غنيمت ہے کہ خود مومن ہے محروم يقيں
ہے يہی بہتر الہيات ميں الجھا رہے
يہ کتاب اللہ کی تاويلات ميں الجھا رہے

(3)

توڑ ڈاليں جس کی تکبيريں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا انديش کی تاريک رات
ابن مريم مر گيا يا زندہ جاويد ہے
ہيں صفات ذات حق، حق سے جدا يا عين ذات؟
آنے والے سے مسيح  ناصري مقصود ہے
يا مجدد، جس ميں ہوں فرزند مريم کے صفات؟
ہيں کلام اللہ کے الفاظ حادث يا قديم
امت مرحوم کی ہے کس عقيدے ميں نجات؟
کيا مسلماں کے ليے کافی نہيں اس دور ميں
يہ الہيات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
تم اسے بيگانہ رکھو عالم کردار سے
تا بساط زندگی ميں اس کے سب مہرے ہوں مات
خير اسی ميں ہے، قيامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر يہ جہان بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق ميں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حيات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی  بيداری سے ميں
ہے حقيقت جس کے ديں کی احتساب کائنات
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی ميں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی ميں اسے

ختم شُد


ترتیب و تعارف: جلالؔ



1 تبصرہ:

  1. علامہ اقبال ایک غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے حضرتِ اقبال کی پوری زندگی کا صرف اور صرف ایک یہی مقصد تھا کہ مسلمانوں میں اخوت،واحدت،اتحاد،اتفاق اور نظم و ضبط جیسی اعلیٰ صفات کو بے دار کر کے انہیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لئے مصروف کار کریں۔

    جواب دیںحذف کریں

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *