منگل، 5 مارچ، 2019

وقت کیا بلا ہے!

وقت

تحریر :محمد ظہیر اقبال

جوں جوں انسانی علم  میں بلندی  آتی گئی ہے اور علم  کی سطح بلند سے بلند تر ہوتی گئی  اور  انسانی معلومات وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی تو  علوم  کی درجہ بندی (Classification) ناگزیر  ہو گئی۔


لہذا جدید سائنس نے وقت کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

١- تصوراتی وقت Conceptual Time
ان کے نزدیک وقت کی ایک قسم خیالی یا تصوراتی ہے ۔ جس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ،ہر انسان کا اپنے خیال اور تصور کے مطابق ایک وقت ہوتا ہے ۔ جو دوسروں سے قطعی مختلف ہوتا ہے ۔۔۔۔

٢- ادراکی وقت Perceptual Time
ان کے نزدیک وقت کا تعلق ہمارے ہوش و حواس سے ہے اور ہم اسے ماضی ، حال ، مستقبل میں تقسیم کر دیتے ہیں اسی کو زمانِ گرداں Serial Time بھی کہتےہیں ۔۔ جس میں پہلے اور بعد کا تصور موجود ہے ۔۔

٣- جسمانی وقت Physical Time
اس کا تعلق اجرام فلکی سے ہے اور اسی میں دن رات ، ماہ و سال کا حساب رکھا جاتا ہے ۔۔۔

٤- مطلق وقت Absolute Time
اسے سب سے پہلے نیوٹن نے پیش کیا تھا ۔اس کے مطابق اس وقت کی رفتار ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے اور کائنات کی کوئی شے اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔ ایک عراقی شاعر نے اسے تقدیر وقتDivine Time کہا ہے کہ یہ ہمیشہ حال میں ہی رہتا ہے ، اور قرآن نے اسی زمان ِ الہیٰ کو اُم الکتاب کہا ہے ۔۔

مشہور فلسفی نکولنس نے کہا تھا وقت انسانی زہن کی پیداوار ہے خارج میں اس کا کہیں کوئی وجود نہیں ۔۔۔ برونو نے کہا تھا کہ حرکت اور زماں و مکاں سب اضافی چیزیں ہیں اور کائنات میں ان کا کوئی وجود نہیں ۔۔۔ کانٹ زماں و مکاں کے ذاتی وجود سے انکاری ہے ۔۔۔۔مشہور فلسفی لائنسٹر کے نزدیک یہ اصلاحات حرکت ِ اضافی ہیں ۔۔

مسلمانوں کے بابائے فلسفی علامہ اقبال نے وقت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔۔
سلسلہ وار وقت  Serial Time
 ایک وہ جسے ہم زمان  گزراں  Serial Time کہتے ہیں ۔ یہ وقت غیر حقیقی ہے ،جسے ہم ماضی ، حال ، مستقبل میں تقسیم کرتے ہیں ۔اس کا تعلق ہماری روز مرہ زندگی سے ہے جس میں حضرت انسان اُلجھا ہوا ہے ، اور یہی مادہ پرستی کو دعوت دیتا ہے کہ جس میں حضرت انسان اس وقت کی بے سمت ریلے میں پھنس کر رہ گیا ہے ۔۔۔۔۔

اقبال کے مطابق وقت کی دوسری تقسیم ہماری قدریں آفریں شخصیت سے ہے ۔ اور یہی حقیقی وقت کی تقسیم ہے ۔۔ اس کا مطلب ہے کہ حضرت انسان اپنی سود وزیاں کی بھول بھلیوں سے نکل کر اپنی تخلیقی فعلیت کو بہترین مقام پر لے جائے اور اس ارتقائی عمل میں خدائے بزرگ و برتر کا مددگار بن جائے ، جو فعل قدرت با مجبوری نہیں کر سکتی وہ یہ حضرت انسان خود کرے ۔۔۔۔

اس ساری تمہید کا مقصد یہ نکلتا ہے کہ

فرد کی عمر کا اندازہ اُس کے ماہ و سال سے نہیں لگانا چاہیے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں کس قدر تخلیقی کام سر انجام دیئے اور وہ فلاح انساں بنے ۔۔۔۔۔۔

جو کسی نے کہا ہے کہ : نہ محبت نہ دوستی کے لئیے، وقت رکتا نہیں کسی کے لئیے۔

وقت: ہم وقت کی پہچان سیکنڈوں، منٹوں، گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں کرتے ہیں۔

ان سب پیمانوں کا تعلق صرف ہمارے سولر سسٹم سے ہے۔ سورج کے گرد زمین کا ایک چکر ایک سال کا پتہ دیتا ہے، جب کہ ہمارا دن زمین کی اپنے محور پر گردش کے سبب وجود میں آتا ہے اور اسی طرح ہفتہ چاند کی زمین کے گرد گردش کا مرہون منت ہے۔
ہم جانتے ہیں یہ کائنات اربوں کہکشاؤں کا مجموعہ ہے اور ہماری ملکی وے میں دو سے تین کھرب سولر سسٹمز ہیں، فرض کریں سارے سولر سسٹم موجود رہیں اور صرف ہمارا سولر سسٹم نہ ہو تو ہمارے گھڑے ہوئے وقت کے یہ سب پیمانے پلک جھپکنے میں ختم ہو جائیں گے، اب ایک اور چیز فرض کریں کہ ہم خلا میں معلق ہوں اور ہماری کوئی زمین نہ ہو اور پھر ایک اور چیز فرض کریں کہ ہماری نظر بھی انتہائی کمزور ہو کہ ہم ستاروں کو بھی نہ دیکھ پائیں۔۔۔

اب بتائیں ہم وقت کا تعین کیسے کریں گے؟

ظاہر ہے تب ہمارے پاس وقت کا کوئی فطری پیمانہ نہیں ہوگا سوائے ماضی حال اور مستقبل کے۔ اور آئن اسٹائن کے مطابق ماضی حال اور مستقبل کا وجود صرف مشاہدہ کرنے والے سے ہے ان کا اپنا کوئی وجود نہیں۔ ایک ہی وقت میں ماضی حال اور مستقبل موجود ہوتے ہیں بس ان کا مشاہدہ کرنے والا ہونا چاہیئے۔ آپ کا ماضی کسی کا مستقبل رہا ہوگا اسی طرح کسی کا حال آپ کا ماضی تھا اور آپ کا مستقبل کسی اور کے لیے ماضی ہوگا۔ ہم جب ستاروں کو دیکھتے ہیں تب ہم ان ستاروں کا کروڑوں سال پرانا ماضی دیکھ رہے ہوتے ہیں عین ممکن ہے جس وقت ہم کسی ستارے کو دیکھ رہے ہیں وہ ستارہ ہزاروں لاکھوں سال پہلے پھٹ چکا ہو، ایک اور چیز جو آئن اسٹائن سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا وہ یہ کہ وقت مشاہدہ کرنے والے کی رفتار کے ساتھ بڑھتا اور کم ہوتا ہے۔ ستر کی دہائی میں ایٹامک کلاک کے ذریعے اس تھیوری کا تجربہ اور مشاہدہ بھی کیا جا چکا ہے۔ ایٹامک کلاک سیکنڈز کے اربوں حصوں کے وقت کو ماپنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی لیے اس سے وقت میں بہت چھوٹے پیمانے میں ہونے والی تبدیلی کا مشاہدہ بھی ممکن ہے۔ اس تجربے سے ثابت ہوا تھا کہ ہم سب کے لیے وقت کی قدر مختلف ہے لیکن یہ تبدیلی ایک سیکنڈ کے اربویں حصوں میں وقوع پذیر ہوتی ہے تو ہم اس کا ادراک نہیں کر پاتے۔

آج چاہے ہم نے اپنی سہولت کے لیے گھڑی بنا بھی لی ہے جو ہمیں گھنٹوں اور منٹوں میں وقت کے گزرنے کا احساس دلاتی ہے لیکن ہمارے لیے شاید وقت ہمیشہ ایک راز ہی رہے گا کیونکہ گھڑیاں ہمیں یہ تو بتا سکتی ہیں کہ کیا وقت ہوا ہے لیکن یہ نہیں بتا سکتیں کہ وقت بذات خود کیا ہے۔

اس کا مطلب یہی ہے کہ وقت صرف ہماری نظروں کے دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

وزن:
وزن کا معاملہ سمجھنا وقت سے بھی کہیں زیادہ آسان ہے۔ وزن بذات خود کچھ بھی نہیں اس کی پیمائش کا تعلق گریویٹی سے ہے۔ مثال کے طور پر اگر میں زمین پر 75 کلو کا ہوں تو ایک نیوٹرون سٹار پر 10500000000000 کلو کا ہوں گا، ایک ڈوارفٹ سٹار پر 97500000 کلو کا، سورج پر 2030 کلو کا، جیوپٹر پر 177 کلو کا، سیٹرن پر 80 کلو کا، مارز پر میرا وزن 28 کلو ہوگا، چاند پر 12 کلو، پلوٹو پر 5 کلو اور خلا میں میرا کوئی وزن نہیں ہوگا۔

اس کا مطلب ہے کہ ہمارے جسم کے وزن کا تعلق ہمارے جسم سے نہیں بلکہ اس جگہ سے ہے جہاں ہم ہوتے ہیں۔ یعنی وزن خود سے کچھ بھی نہیں ہے یہ تو کشش ثقل ہے جو آپ کو مختلف قوتوں سے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ بلکہ اب تو کشش ثقل کو بھی ایک Illusion قرار دے دیا گیا ہے یہ شاید کشش ثقل بھی نہیں بلکہ آئن اسٹائن کی \’سپیس ٹائم فیبرک\’ یعنی زمان مکان کی چادر کا کمال ہے۔

سمت:
سمت بھی ایک ایسی ہی چیز ہے جو اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی لیکن ہم نے اپنی آسانی اور روز مرہ کے کام انجام دینے کے لیے اسے مشرق مغرب شمال اور جنوب میں ہی نہیں بلکہ تین سو ساٹھ ڈگریوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔

ہمارے وقت کے پیمانے کا تعلق تو ہمارے سولر سسٹم کے ساتھ تھا لیکن ہماری سمت کا پیمانہ صرف زمین سے تعلق رکھتا ہے، چونکہ خلا میں کوئی قطبین نہیں ہوتی تو مشرق مغرب کا بھی کوئی وجود نہیں ہے، آپ خلا میں گھومتے ہوئے یہ نہیں بتا سکتے کہ آپکا \”اوپر\” کون سا ہے اور \”نیچے\” کون سا۔ وہاں دائیں بائیں یا مشرق مغرب کا تو تصور ہی محال ہے اور ہاں خلائی راکٹس اپنے سفر کے دوران مقناطیسی کمپاس سے رہنمائی نہیں لیتے بلکہ وہ دور دراز ستاروں کو دیکھ کر اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں اور وہ منزل مشرق مغرب نہیں بلکہ ایک غیر متعین بے نامی سمت میں ہوتی ہے۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *