سیاسی اور دینی جماعتیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سیاسی اور دینی جماعتیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 22 جنوری، 2020

سیاسی اور دینی جماعتیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سیاسی اور دینی جماعتیں
کوئی سیاسی جماعت ہو یا مذہبی فرقہ اِن کی بنیاد ی تشکیل میں یہ چیز لازم ہے کہ یہ کسی  سوچ اور فکر کی بنیادی اساس پر قائم ہو ں۔انسان فکر اور سوچ کا المیہ یہ ہے کہ  یہ کامل و اکمل نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں انبیاء علیہ سلام کے ذریعے انسانوں کو ہدایت اور رہنمائی کے لئے خالقِ کائینات کی طرف سے ہدایت کا  انتظام کیا جاتا رہا ہے۔بررصغیر پاک و ہند میں ویسے تو بہت سے جماعتیں بنی لیکن چند بڑی جماعتوں میں ایک نام جماعتِ اسلامی ہے جس کی بنیاد مولانا سید مودوی ؒ صاحب نے رکھی  ۔اس جماعت کا فکر و فلسفہ بھی جناب مولانا مودودی صاحب کی ذاتی سوچ اور فکر و فلسفے کی بنیاد پر تھا جو بظاہر ایک بہت ہی اچھا اور عین حق معلوم ہوتا تھا ۔مگر وقت اور زمانے کی گردش نے ثابت کیا کہ انسانی سوچ اس مقصد اور ضرورت کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتی۔ایک عام انسان کسی طرح بھی  انبیاء علیہ سلام کی سوچ اور فکر کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔کیونکہ انبیاء علیہ سلام کی سوچ اور فکر کی شان وحی ہے جو  انبیاء علیہ سلام کو عام انسانوں سے ممتاز اور کامل عقل و فکر عطاء کرتی ہے۔انبیاء علیہ سلام کی سوچ اور فکر کے نتیجے میں تشکیل پانے والی جماعت کا فکر و فلسفہ خود کائینات کے خالق کی جانب سے نازل کیا گیا ہوتا ہے لہذا یہ ایک جامع اور مکمل غلطی سے پاک فکر ہوتا ہے۔میں ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ بات کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ہمارا کام جماعتیں بنانا نہیں ہے شاید ہمارا کام کچھ اور تھا۔جماعتیں بنانا انبیاء علیہ سلام کا کام تھا سو  یہ کام انہی مقدس اور مُقرب ہستیوں کے ہاتھوں پائے تکمیل کو  پہنچ  چُکا  ۔اُمتیوں کا یہ کام نہیں  ہے کہ وہ کسی نئے فکر و فلسفے کے ساتھ ایک نئی جماعت بنا کر نئے سرے سے کنواں کھودنا شروع کر دیں اور پہلے سے موجود کنوئیں کے پانی کو ناقابل استعمال قرار دے دیں ۔یہ کسی طرح سے بھی عقل ودانش کا کام نہیں ہو سکتاہے۔جس کام کا نہ ہمیں مکلف بنیا گیا ہے اور نہ ہی جسے کرنے کی ہم صلاحیت و اہلیت رکھتے ہیں۔ستر سالہ تاریخ ہمارے سامنے ہے کسی جماعت کو بھی لے لیں نتیجہ وہی صفر ہی ملے گا۔اس المیہ کے پیچھے ایک اور انتہائی اہم امر بھی چھپا ہوا ہے وہ یہ کہ جماعتوں  کی تشکیل نو کے پیچھے جماعت کے بانیوں کی ذاتی پسند اور نا پسند کوبھی بحرحال کسی نہ کسی درجے میں دخل ہوتا ہے لہذا قرآن و سنت کے فکر و فلسفے کی روح سے میرے نذدیک اُمت کی کامیابی جماعتوں کی بنیادیں رکھنے میں ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتی ۔اُمت کی کامیابی صرف اور صرف اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ قرآن و سُنت کے مطابق نبی کریم ﷺ کی تشکیل کردہ جماعت کی پیروی اور عمل کریں۔اپنی اپنی جماعتیں بنانے سے پہلے ہمیں یہ لازمی سوچ لینا چاہئے کہ کل روزِ قیامت نبی ﷺ کو کیا جواب اور وضاحت دینی ہے۔کیونکہآپؐ کا فرمان ہے کہ میرے بعد تفرقے میں پڑ کے فرقہ فرقہ نہ ہو جانا۔کیا اِن جماعتوں کی تشکیل ایک نئے فرقے کی تشکیل نہیں ہے؟ بلکہ یہ فرقہ بندی کی انتہائی خطرناک شکل ہے جس میں انسان کی نفسانی خواہشات بھی شامل ہو جاتی ہیں۔مَیں کسی خاص شخصیت اور جماعت پر تنقید کرنے کی غرض سے ہرگز ہرگز بات نہیں کر رہا  میں تمام جماعتوں کی بات کر رہا ہوں ۔جماعتِ اسلامی کو زیرِ بحث لانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ جماعت باقائدہ ایک فکر و فلسفے کی بنیاد پر بنائی گئی اور اس جماعت کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ فرد کی اصلاح سے ایک ایسی جماعت وجود میں آئے گی یا لائی جائے گی جس  کے تمام افراد ایک فکر و نظریے کے حامل ہونگے ۔اس مقصد کے لئے جماعت نے بے انتہا کام بھی کیا اور کسی حد تک افراد کا ایک ایسا گروہ بھی تیار کر لیا جو اس جماعت کا بنیادی فکر و فلسفہ تھا۔جماعت تمام جماعتوں سے زیادہ منظم اور  تعلیم یافتہ کارکن رکھتی ہے۔پھر کیا وجہ ہے کہ یہ جماعت بھی زمانے کی گرد  وغبار میں اُلجھ کر رہ گئی اور اپنے حقیقی مقصد کو پانے میں ناکام رہی ہے۔حلانکہ  اس جماعت کا نظریہ اور فکر اپنے اندر انتہائی وسعت رکھتا ہے۔اس کے کارکن پڑھے لکھے ہونے کہ ساتھ ساتھ مذہب سے لگاؤ اور محبت رکھتے ہیں۔کسی جماعت کے ساتھ خواتین کی اتنی بڑی تعداد نہیں پائی جاتی جتنی جماعت ِ اسلامی کے شعبہ خواتین میں پائی جاتی ہے ۔انتہائی نظریاتی اور منظم خواتین ہونے کے ساتھ تعلیم یافتہ بھی ہیں۔پاکستان بننے سے پہلے اور بعد کوئی ایسی جماعت کم از کم بررصغیر میں نہیں تھی۔بحرحال ہمارا مقصد جماعت پر تنقید نہیں بلکہ اُس نقطے کی نشان دہی کرنی مقصود ہے جس کا شکار یہ ساری جماعتیں ہوئی ہیں۔دوسری بڑی جماعت تبلیغی جماعت ہے اور جس کا دعویٰ خالص دینی جماعت ہونے کا ہے۔لیکن میرے نذدیک جماعتِ اسلامی کو تبلیغی جماعت پر برتری اور مقام حاصل ہے ۔اس کی وجہ جماعت کا نظم و ضبط  اور تعلیم یافتہ ہونا نہیں ہے بلکہ جماعت کا اسلام کو ایک سیاسی نظام ماننا اور اس کے لئے کوشش و سعی کرنا ہے ۔جبکہ تبلیغی جماعت اسلام کے اس انتہائی اہم پہلو کا انکار کر دیتی ہے۔مذہب اور سیاست کو الگ الگ کرنا دین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔یعنی ایک مذہبی حصہ اور ایک سیاسی  حصہ یہ دین کی اساس کو مِٹانے جیسا عمل ہے۔
مولانا  مودُدی کا فکر و فلسفہء
جماعتِ اسلامی کو درحقیقت سیاسی میدان میں  نا کامی کا سامنا رہا ہے۔جماعت ِ اسلامی سیاست میں اس لئے بھی نا کام رہی ہے کہ موجودہ سیاسی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے جن مقاصد کے لئے ترتیب دے رکھا ہے اس میں مذہب کا کو ئی خانہ نہیں ہے۔بلکہ مذہب کا انکار پایا جاتا ہے۔یہی وہ اہم نقطہ ہے جس میں جماعت ِ اسلامی کا فکری پہلو کمزور ہے۔جماعت  اسلامی  کے فکر و فلسفے کو ٹھوکر اسی نقطے پر لگی ہے۔جماعت اسلامی نے دو مختلف نظاموں کو جمع کرنے  کوشش کی  جو کسی طرح سے بھی ممکن نہیں ہے۔جماعت اسلامی کی بنیاد بحر حال اسلام اور مذہب کی اساس پر ہی استوار کی گئی تھی اور اسلام اپنا ایک الگ تشخص اور مکمل نظام رکھتا ہے جس میں سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے جس کا معاشی نظام سودی نظام کا سب سے بڑا مخالف اور اپنا ایک الگ معاشی نظام پیش کرتا ہے۔دو تلواریں ایک نیام میں کیسے اور کیونکر جمع کی جا سکتی ہیں۔فکر ِ مودُدیؒ اسی نقطے پر سوالیہ نشان پیدا کرتا ہے۔مودُدیؒ کی تصانیف کا مطالعہ کرنے سے جو بات مجھ جیسے کم علم کو سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ  صرف اور صرف خُدائے واحد کا حق ہے جس میں وہ کسی کو شریک نہیں کرتا یہ بات  درست اور عین اسلام کی رُوح کے مطابق ہے پھر وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ انسانی زندگی کے تمام پہلو سیاسی ،معاشی،معاشرتی اور ذاتی معاملات تک کے لئے ہدایت اور رہنمائی اسی حاکمیتِ اعلٰی کی جانب سے ملنے والی ہدایت جو انبیاء علیہ سلام کے ذریعے پہنچی  لینا لازم ہے۔یہ بات بھی سو فیصد درست اور عین اسلامی نظریہ و عقیدہ ہے۔خلافت و مُلوکیت جو کہ آپ کی تصنیف ہے جس کے پہلے باب میں قرآن کی سیاسی تعلیمات کی روشنی میں تصورِ کائینات  بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ "سیاست کے متعلق قرآن کا نظریہ اُس کے اساسی تصور ِ کائینات پر مبنی ہے جسے نگاہ میں رکھنا اِس نظریہ کو ےٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔فلسفہء سیاست کے نقطہء نظر سے اگر اس تصور ِ کائینات کا جائزہ لیا جائے تو حسبِ ذیل نکات ہمارے سامنے آتے ہیں"۔
(الف) اللہ تعالٰی اس پوری کائینات کا اور خود انسان کا اور اُن تمام چیزوں کا خالق ہے جن سے انسان اس دنیا میں مستفید ہوتا ہے۔
ح۔ق(الا نعام :73) ترجمہ "اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے"۔
ح۔ق (الرعد:16)  ترجمہ"کہو،اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی یکتا ہے سب کو مغلوب کر کے رکھنے والا"۔
ح۔ق (النساء :1)  ترجمہ "لوگو، ڈرو اپنے اُس رب سے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُس سے اُس کا جوڑا وجود میں لایا اور اُن دونوں سے اُس نے بکثرت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے"۔
ح۔ق (البقرہ : 29)  ترجمہ " وہی ہے جس نے تمہارے لئے وہ سب چیزیں پیدا کیں جو زمین میں ہیں"۔
ح۔ق ( الواقعہ : 58-72)   ترجمہ " کیا تم نے غور کیا ، یہ نطفہ جو تم ٹپکاتے ہو اُس سے بچہ تم پیدا کرتے ہو یا اُس کے خالق ہم ہیں؟۔۔۔تم نے غور کیا ، یہ کھیتی جو تم بوتے ہو اُسے تم اُگاتے ہو یا اُس کے اُگانے والے ہم ہیں ؟ ۔۔۔تم نے غور کیا ، یہ پانی جو تم پیتے ہو اسے بادل سے تم برساتے ہو یا اس کے برسانے والے ہم ہیں ؟ ۔۔۔تم نے غور کیا ، یہ آگ جو تم سُلگاتے ہو اس کے درخت تم نے پیدا کیے ہیں یا ان کے پیدا کرنے والے ہم ہیں "۔
(ب)اپنی پیدا کردہ اِس خلق کا مالک ، فرمانروا اور مُدبر و منتظم بھی اللہ ہی ہے ۔
ح۔ق ( طٰہٰ : 8 ) ترجمہ " اُسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کی تہ میں ہے"۔
جاری ہے۔۔۔




رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *