منگل، 2 اپریل، 2019

نکاح اور شادی


محترم وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب

تحریر: محمد ظہیر اقبال
 4-1-2019

اسلام علیکم:- مزآجِ معلیٰ بفضلِ تعالیٰ احسن ہونگے بندہ آپ کے لئے دُعا گوہ ہے۔جناب وزیراعظم عمران خان صاحب ہمیں فخر ہے کہ ایک ایماندار اور محب وطن انسان آج ہمارا وزیراعظم ہے جس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے حضور لاکھ لاکھ شکرادا کرتے ہیں۔ جناب ِ عالیٰ میں نہ تو کوئی مشہور و معروف صحافی ہوں اور نہ ہی میڈیا اینکر ہوں میں لاکھوں کڑوڑؤں دیگر پاکستانیوں کی طرح ایک عام پاکستانی ہوں،لیکن میں ایک عام پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک و قوم کے بارے بھی ایک فکر اور سوچ رکھتا ہوں۔ محترم وزیراعظم صاحب میں آج چند باتیں کہنا چاہتا ہوں اگر میری گزارشات آپ تک پہنچ گئیں تو یہ میرے لئے بہت بڑے اعزاز اور خوش نصیبی کی بات ہو گی۔

محترم وزیراعظم صاحب میں کسی بحث میں الجھے بغیر آپ کے سامنے جو کچھ بیان کرنے جا رہا ہوں وہ حقیقت اور سچائی پر مبنی ہے۔ وزیراعظم صاحب ہر دور میں غریب نے ہی قربانیاں دی ہیں اور آج بھی یہی لوگ ہیں جو ہر طرح سے آپ کے لئے دُعا گوہ ہیں۔ ان غریبوں کے پاس مال و دولت تو نہیں ہوتا اسی لئے تو یہ غریب کہلاتے ہیں لیکن ان کے پاس ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو بڑے بڑے مال داروں کے ہاں بھی کم ہی دیکھائی دیتی ہے اور وہ ہے ان کی خوداری اور عزتِ نفس جسے یہ بہت سنبھال کر رکھتے ہیں۔ اگر خدا نا خواستہ ان کی یہ پونجی لُٹ جائے تو پھر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کے یہ کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ جناب وزیراعظم صاحب اس وقت ہمارے ملک پاکستان میں جو لوگ امیر اور خوشحال ہیں ان میں پچاس فیصد وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طرح سے دوسروں کے حق حقوق دبائے ہوئے ہیں ۔ یہ ظالم طبقہ ہر سطح اور ہر جگہ پایا جاتا ہےمیں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا بلکہ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان اصلی اور نقلی امیروں کی دیکھا دیکھی کچھ ناعاقبت اندیشوں نے شادی جیسے پاکیزہ رشتے کو بھی باقائدہ ایک کاروباری رسم رواج بنا دیا ہے حالانکہ اسلام اس طرح کی تمام چیزوں کی نفی کرتا ہے لیکن کون سمجھائےاُس عقل کے اندھے امیر کو جو صرف مہندی کی رسم کے نام پر تیس پنتیس لاکھ خرچ کر ڈالتا ہے اور نہیں سوچتا کہ میرا یہ عمل دوسروں کے لئے پہلے مثال اور بعد میں مسئلہ بن جائے گا۔ کیونکہ ایک نوکری پیشہ یا چھوٹا کاروباری کسی طور بھی اتنی رقم صرف مہندی تو درکنارمکمل شادی پر بھی خرچ نہیں کر سکتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حوا کی بیٹی کی زندگی جیتے جی جہنم بن جاتی ہے ماں باپ جو بیٹی کو بیا کر ابھی فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ بیٹی ان کےدروازے پرآنکھوں میں آنسوؤں کے سمندر لئے آ کھڑی ہوتی ہے۔ اور یہ اس ظلم کا سافٹ پہلو ہے ورنہ عام طور پراسے موقعوں پر رواج پہلے تیل کا چولہہ تھا آج کل گیس لیکج ہے شاید۔۔۔ جناب وزیراعظم صاحب کون ہے اس ظلم کے نظام اور رسم و رواج کا ذمہ دار ؟ اسلام نے بیٹی کو بھی باپ کی وراثت میں حصہ اور حق دار بنایا ہے۔ کیا رسم و روج دین اسلام سے بڑھ کر ہیں؟ اب تصویر کا دوسرا روخ بھی ذرا دیکھئے ہزاروں لاکھوں بچیاں ہیں جن کی شادی کی عمر گزر جاتی ہے صرف اس لئے کہ کچھ کم ظرفوں نےفضول خرچی کی ایسی ایسی مثالیں بنا ڈالی ہیں کہ جنہیں ایک عام آدمی چھو بھی نہیں سکتا۔ میں وزیراعظم عمران خان سے درخواست اور التجا کرتا ہوں کہ آپ نے ریاستِ مدینہ کی بات کی اچھی بات ہے ضرور بنائیں لیکن اس میں کم ازکم یہی ایک کام کر دیں کہ جہیز جیسی ہندوونہ رسم پر پابندی اور باپ کی جائداد میں بیٹی کا شرعی حصہ دینے کو یقینی بنا دیں۔ حضور نبیِ کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ دین میں سب سے آسان کام کیا ہے تو آپؐ نے فرمایا نکاح ۔ لیکن آج نکاح کو مشکل سے مشکل ترین بنایا جا رہا ہے۔ اگر ہم ایک مثالی معاشرے کا قیام چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے بنیادی چیزوں کو درست کرنا ہوگا۔ شادی یا نکاح کا ایک ایسا طریقہ اور قانون واضع کیا جائے جس میں امیری غریبی کسی طور سے رکاوٹ نہ بن سکے۔ میں سمجھتا ہوں کسی ملک قوم یا ریاست کی بنیاد جن ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے ان میں سب سے اہم اور سب سے قیمتی ستون خاندانی نظام ہے۔ اور یاد رہے یہ آخری ستون بچا ہے جسے گرانے اور توڑنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ مشرف دورمیں نام نہاد حقوقِ نسواں بل درحقیقت خاندانی نظام کو توڑنے کی ایک ابتدائی کوشش اور شروعات تھی۔ مغربی معاشرہ آج تبائی کے جس مقام پر پہنچا ہے اس کی وجہ معیشت نہیں خاندانی نظام کا ٹوٹنا ہے۔ عثمانی دور میں نکاح ریاستی ذمہ داری تھی۔ محترم وزیراعظم صاحب اگر آپ کی حکومت واقعی میں عام آدمی کی حکومت ہے تو ان غریبوں بلکہ اب توسفید پوش درمیانہ طبقہ بھی غریبوں میں شامل ہے کے لئے یہ نیک کام کر کے اپنی دنیا و آخرت کی کامیابی کو یقینی بنانے میں دیر نہ کریں۔ مہنگائی نے ویسے بھی غریب اور سفید پوش کے بھرم کو اُڑا کے تار تار کر دیا ہے۔ ایک باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے قیمتی اور بہترین چیز تعلیم ہے۔ بحصیت ایک انسان مرد و عورت کی شخصیت میں خوبیوں خامیوں کا معیارہی اصل کسوٹی ہے نہ کہ اس کی مالی حیثیت اور یہی ریاست مدینہ کا اصل اصول بھی۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *