جمعہ، 24 جنوری، 2020

خُفتگانِ خاک سے استفسار

خُفتگانِ خاک سے استفسار


 علامہؔ محمد اقبالؒ

مہرِ روشن چھُپ گیا، اُٹھّی نقابِ رُوئے شام
شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہُوا گیسُوئے شام
یہ سیَہ پوشی کی تیّاری کسی کے غم میں ہے
محفلِ قُدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے
کر رہا ہے آسماں جادُو لبِ گُفتار پر
ساحرِ شب کی نظر ہے دیدۂ بیدار پر
غوطہ زن دریائے خاموشی میں ہے موجِ ہوا
ہاں، مگر اک دُور سے آتی ہے آوازِ درا
دل کہ ہے بے تابیِ اُلفت میں دنیا سے نفُور
کھینچ لایا ہے مجھے ہنگامۂ عالم سے دُور
منظرِ حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں
ہم نشینِ خُفتگان کُنجِ تنہائی ہوں میں 

تھم ذرا بے تابیِ دل! بیٹھ جانے دے مجھے
اور اس بستی پہ چار آنسو گرانے دے مجھے
اے مئے غفلت کے سر مستو! کہاں رہتے ہو تم؟
کُچھ کہو اُس دیس کی آخر، جہاں رہتے ہو تم
وہ بھی حیرت خانۂ امروز و فردا ہے کوئی؟
اور پیکارِ عناصِر کا تماشا ہے کوئی؟
آدمی واں بھی حصارِ غم میں ہے محصُور کیا؟
اُس ولایت میں بھی ہے انساں کا دل مجبُور کیا؟
واں بھی جل مرتا ہے سوزِ شمع پر پروانہ کیا؟
اُس چمن میں بھی گُل و بُلبل کا ہے افسانہ کیا؟
یاں تو اک مصرع میں پہلو سے نکل جاتا ہے دل
شعر کی گرمی سے کیا واں بھی پگھل جاتا ہے دل؟
رشتہ و پیوند یاں کے جان کا آزار ہیں
اُس گُلستاں میں بھی کیا ایسے نُکیلے خار ہیں؟
اس جہاں میں اک معیشت اور سَو اُفتاد ہے
رُوح کیا اُس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟
کیا وہاں بجلی بھی ہے، دہقاں بھی ہے، خرمن بھی ہے؟
قافلے والے بھی ہیں، اندیشۂ رہزن بھی ہے؟
تِنکے چُنتے ہیں وہاں بھی آشیاں کے واسطے؟
خِشت و گِل کی فکر ہوتی ہے مکاں کے واسطے؟
واں بھی انساں اپنی اصلیّت سے بیگانے ہیں کیا؟
امتیازِ ملّت و آئِیں کے دیوانے ہیں کیا؟
واں بھی کیا فریادِ بُلبل پر چمن روتا نہیں؟
اِس جہاں کی طرح واں بھی دردِ دل ہوتا نہیں؟ 

باغ ہے فردوس یا اک منزلِ آرام ہے؟
یا رُخِ بے پردۂ حُسنِ ازل کا نام ہے؟
کیا جہنّم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے؟
آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصدِ تادیب ہے؟
کیا عوض رفتار کے اُس دیس میں پرواز ہے؟
موت کہتے ہیں جسے اہلِ زمیں، کیا راز ہے؟
اضطرابِ دل کا ساماں یاں کی ہست و بود ہے
علمِ انساں اُس ولایت میں بھی کیا محدود ہے؟
دید سے تسکین پاتا ہے دلِ مہجُور بھی؟
لن ترانی‘ کہہ رہے ہیں یا وہاں کے طُور بھی؟
جستجو میں ہے وہاں بھی رُوح کو آرام کیا؟
واں بھی انساں ہے قتیلِ ذوقِ استفہام کیا؟
آہ! وہ کِشور بھی تاریکی سے کیا معمُور ہے؟
یا محبّت کی تجلّی سے سراپا نُور ہے؟
تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے
موت اک چُبھتا ہُوا کانٹا دلِ انساں میں ہے 



بدھ، 22 جنوری، 2020

سیاسی اور دینی جماعتیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سیاسی اور دینی جماعتیں
کوئی سیاسی جماعت ہو یا مذہبی فرقہ اِن کی بنیاد ی تشکیل میں یہ چیز لازم ہے کہ یہ کسی  سوچ اور فکر کی بنیادی اساس پر قائم ہو ں۔انسان فکر اور سوچ کا المیہ یہ ہے کہ  یہ کامل و اکمل نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں انبیاء علیہ سلام کے ذریعے انسانوں کو ہدایت اور رہنمائی کے لئے خالقِ کائینات کی طرف سے ہدایت کا  انتظام کیا جاتا رہا ہے۔بررصغیر پاک و ہند میں ویسے تو بہت سے جماعتیں بنی لیکن چند بڑی جماعتوں میں ایک نام جماعتِ اسلامی ہے جس کی بنیاد مولانا سید مودوی ؒ صاحب نے رکھی  ۔اس جماعت کا فکر و فلسفہ بھی جناب مولانا مودودی صاحب کی ذاتی سوچ اور فکر و فلسفے کی بنیاد پر تھا جو بظاہر ایک بہت ہی اچھا اور عین حق معلوم ہوتا تھا ۔مگر وقت اور زمانے کی گردش نے ثابت کیا کہ انسانی سوچ اس مقصد اور ضرورت کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتی۔ایک عام انسان کسی طرح بھی  انبیاء علیہ سلام کی سوچ اور فکر کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔کیونکہ انبیاء علیہ سلام کی سوچ اور فکر کی شان وحی ہے جو  انبیاء علیہ سلام کو عام انسانوں سے ممتاز اور کامل عقل و فکر عطاء کرتی ہے۔انبیاء علیہ سلام کی سوچ اور فکر کے نتیجے میں تشکیل پانے والی جماعت کا فکر و فلسفہ خود کائینات کے خالق کی جانب سے نازل کیا گیا ہوتا ہے لہذا یہ ایک جامع اور مکمل غلطی سے پاک فکر ہوتا ہے۔میں ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ بات کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ہمارا کام جماعتیں بنانا نہیں ہے شاید ہمارا کام کچھ اور تھا۔جماعتیں بنانا انبیاء علیہ سلام کا کام تھا سو  یہ کام انہی مقدس اور مُقرب ہستیوں کے ہاتھوں پائے تکمیل کو  پہنچ  چُکا  ۔اُمتیوں کا یہ کام نہیں  ہے کہ وہ کسی نئے فکر و فلسفے کے ساتھ ایک نئی جماعت بنا کر نئے سرے سے کنواں کھودنا شروع کر دیں اور پہلے سے موجود کنوئیں کے پانی کو ناقابل استعمال قرار دے دیں ۔یہ کسی طرح سے بھی عقل ودانش کا کام نہیں ہو سکتاہے۔جس کام کا نہ ہمیں مکلف بنیا گیا ہے اور نہ ہی جسے کرنے کی ہم صلاحیت و اہلیت رکھتے ہیں۔ستر سالہ تاریخ ہمارے سامنے ہے کسی جماعت کو بھی لے لیں نتیجہ وہی صفر ہی ملے گا۔اس المیہ کے پیچھے ایک اور انتہائی اہم امر بھی چھپا ہوا ہے وہ یہ کہ جماعتوں  کی تشکیل نو کے پیچھے جماعت کے بانیوں کی ذاتی پسند اور نا پسند کوبھی بحرحال کسی نہ کسی درجے میں دخل ہوتا ہے لہذا قرآن و سنت کے فکر و فلسفے کی روح سے میرے نذدیک اُمت کی کامیابی جماعتوں کی بنیادیں رکھنے میں ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتی ۔اُمت کی کامیابی صرف اور صرف اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ قرآن و سُنت کے مطابق نبی کریم ﷺ کی تشکیل کردہ جماعت کی پیروی اور عمل کریں۔اپنی اپنی جماعتیں بنانے سے پہلے ہمیں یہ لازمی سوچ لینا چاہئے کہ کل روزِ قیامت نبی ﷺ کو کیا جواب اور وضاحت دینی ہے۔کیونکہآپؐ کا فرمان ہے کہ میرے بعد تفرقے میں پڑ کے فرقہ فرقہ نہ ہو جانا۔کیا اِن جماعتوں کی تشکیل ایک نئے فرقے کی تشکیل نہیں ہے؟ بلکہ یہ فرقہ بندی کی انتہائی خطرناک شکل ہے جس میں انسان کی نفسانی خواہشات بھی شامل ہو جاتی ہیں۔مَیں کسی خاص شخصیت اور جماعت پر تنقید کرنے کی غرض سے ہرگز ہرگز بات نہیں کر رہا  میں تمام جماعتوں کی بات کر رہا ہوں ۔جماعتِ اسلامی کو زیرِ بحث لانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ جماعت باقائدہ ایک فکر و فلسفے کی بنیاد پر بنائی گئی اور اس جماعت کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ فرد کی اصلاح سے ایک ایسی جماعت وجود میں آئے گی یا لائی جائے گی جس  کے تمام افراد ایک فکر و نظریے کے حامل ہونگے ۔اس مقصد کے لئے جماعت نے بے انتہا کام بھی کیا اور کسی حد تک افراد کا ایک ایسا گروہ بھی تیار کر لیا جو اس جماعت کا بنیادی فکر و فلسفہ تھا۔جماعت تمام جماعتوں سے زیادہ منظم اور  تعلیم یافتہ کارکن رکھتی ہے۔پھر کیا وجہ ہے کہ یہ جماعت بھی زمانے کی گرد  وغبار میں اُلجھ کر رہ گئی اور اپنے حقیقی مقصد کو پانے میں ناکام رہی ہے۔حلانکہ  اس جماعت کا نظریہ اور فکر اپنے اندر انتہائی وسعت رکھتا ہے۔اس کے کارکن پڑھے لکھے ہونے کہ ساتھ ساتھ مذہب سے لگاؤ اور محبت رکھتے ہیں۔کسی جماعت کے ساتھ خواتین کی اتنی بڑی تعداد نہیں پائی جاتی جتنی جماعت ِ اسلامی کے شعبہ خواتین میں پائی جاتی ہے ۔انتہائی نظریاتی اور منظم خواتین ہونے کے ساتھ تعلیم یافتہ بھی ہیں۔پاکستان بننے سے پہلے اور بعد کوئی ایسی جماعت کم از کم بررصغیر میں نہیں تھی۔بحرحال ہمارا مقصد جماعت پر تنقید نہیں بلکہ اُس نقطے کی نشان دہی کرنی مقصود ہے جس کا شکار یہ ساری جماعتیں ہوئی ہیں۔دوسری بڑی جماعت تبلیغی جماعت ہے اور جس کا دعویٰ خالص دینی جماعت ہونے کا ہے۔لیکن میرے نذدیک جماعتِ اسلامی کو تبلیغی جماعت پر برتری اور مقام حاصل ہے ۔اس کی وجہ جماعت کا نظم و ضبط  اور تعلیم یافتہ ہونا نہیں ہے بلکہ جماعت کا اسلام کو ایک سیاسی نظام ماننا اور اس کے لئے کوشش و سعی کرنا ہے ۔جبکہ تبلیغی جماعت اسلام کے اس انتہائی اہم پہلو کا انکار کر دیتی ہے۔مذہب اور سیاست کو الگ الگ کرنا دین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔یعنی ایک مذہبی حصہ اور ایک سیاسی  حصہ یہ دین کی اساس کو مِٹانے جیسا عمل ہے۔
مولانا  مودُدی کا فکر و فلسفہء
جماعتِ اسلامی کو درحقیقت سیاسی میدان میں  نا کامی کا سامنا رہا ہے۔جماعت ِ اسلامی سیاست میں اس لئے بھی نا کام رہی ہے کہ موجودہ سیاسی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے جن مقاصد کے لئے ترتیب دے رکھا ہے اس میں مذہب کا کو ئی خانہ نہیں ہے۔بلکہ مذہب کا انکار پایا جاتا ہے۔یہی وہ اہم نقطہ ہے جس میں جماعت ِ اسلامی کا فکری پہلو کمزور ہے۔جماعت  اسلامی  کے فکر و فلسفے کو ٹھوکر اسی نقطے پر لگی ہے۔جماعت اسلامی نے دو مختلف نظاموں کو جمع کرنے  کوشش کی  جو کسی طرح سے بھی ممکن نہیں ہے۔جماعت اسلامی کی بنیاد بحر حال اسلام اور مذہب کی اساس پر ہی استوار کی گئی تھی اور اسلام اپنا ایک الگ تشخص اور مکمل نظام رکھتا ہے جس میں سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے جس کا معاشی نظام سودی نظام کا سب سے بڑا مخالف اور اپنا ایک الگ معاشی نظام پیش کرتا ہے۔دو تلواریں ایک نیام میں کیسے اور کیونکر جمع کی جا سکتی ہیں۔فکر ِ مودُدیؒ اسی نقطے پر سوالیہ نشان پیدا کرتا ہے۔مودُدیؒ کی تصانیف کا مطالعہ کرنے سے جو بات مجھ جیسے کم علم کو سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ  صرف اور صرف خُدائے واحد کا حق ہے جس میں وہ کسی کو شریک نہیں کرتا یہ بات  درست اور عین اسلام کی رُوح کے مطابق ہے پھر وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ انسانی زندگی کے تمام پہلو سیاسی ،معاشی،معاشرتی اور ذاتی معاملات تک کے لئے ہدایت اور رہنمائی اسی حاکمیتِ اعلٰی کی جانب سے ملنے والی ہدایت جو انبیاء علیہ سلام کے ذریعے پہنچی  لینا لازم ہے۔یہ بات بھی سو فیصد درست اور عین اسلامی نظریہ و عقیدہ ہے۔خلافت و مُلوکیت جو کہ آپ کی تصنیف ہے جس کے پہلے باب میں قرآن کی سیاسی تعلیمات کی روشنی میں تصورِ کائینات  بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ "سیاست کے متعلق قرآن کا نظریہ اُس کے اساسی تصور ِ کائینات پر مبنی ہے جسے نگاہ میں رکھنا اِس نظریہ کو ےٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔فلسفہء سیاست کے نقطہء نظر سے اگر اس تصور ِ کائینات کا جائزہ لیا جائے تو حسبِ ذیل نکات ہمارے سامنے آتے ہیں"۔
(الف) اللہ تعالٰی اس پوری کائینات کا اور خود انسان کا اور اُن تمام چیزوں کا خالق ہے جن سے انسان اس دنیا میں مستفید ہوتا ہے۔
ح۔ق(الا نعام :73) ترجمہ "اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے"۔
ح۔ق (الرعد:16)  ترجمہ"کہو،اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی یکتا ہے سب کو مغلوب کر کے رکھنے والا"۔
ح۔ق (النساء :1)  ترجمہ "لوگو، ڈرو اپنے اُس رب سے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُس سے اُس کا جوڑا وجود میں لایا اور اُن دونوں سے اُس نے بکثرت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے"۔
ح۔ق (البقرہ : 29)  ترجمہ " وہی ہے جس نے تمہارے لئے وہ سب چیزیں پیدا کیں جو زمین میں ہیں"۔
ح۔ق ( الواقعہ : 58-72)   ترجمہ " کیا تم نے غور کیا ، یہ نطفہ جو تم ٹپکاتے ہو اُس سے بچہ تم پیدا کرتے ہو یا اُس کے خالق ہم ہیں؟۔۔۔تم نے غور کیا ، یہ کھیتی جو تم بوتے ہو اُسے تم اُگاتے ہو یا اُس کے اُگانے والے ہم ہیں ؟ ۔۔۔تم نے غور کیا ، یہ پانی جو تم پیتے ہو اسے بادل سے تم برساتے ہو یا اس کے برسانے والے ہم ہیں ؟ ۔۔۔تم نے غور کیا ، یہ آگ جو تم سُلگاتے ہو اس کے درخت تم نے پیدا کیے ہیں یا ان کے پیدا کرنے والے ہم ہیں "۔
(ب)اپنی پیدا کردہ اِس خلق کا مالک ، فرمانروا اور مُدبر و منتظم بھی اللہ ہی ہے ۔
ح۔ق ( طٰہٰ : 8 ) ترجمہ " اُسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کی تہ میں ہے"۔
جاری ہے۔۔۔




پاکستان میں بیرونی مداخلت

پاکستان میں بیرونی مداخلت
تحریر: محمد ظہیر اقبال

یہ بات اہل نظر پر عیاں ہے کہ جبر و زیادتی سے حاصل کی جانے والی ریاست اسرائیل  یہودیت کے لئے ایک سزا کے سوا کچھ  بھی نہیں ہے۔یہ  دنیا کے سامنے ایک قوم  کی طرح نہیں آتے اور نہ کبھی آئیں گے عام طور پر  دنیا کا یہ خیال ہے کہ یہ اپنے آپ کو ظاہر نہ کرتے ہوئے دنیا میں شراتیں اور فساد  کرتے ہیں ۔یہ بات درست ہے کہ یہ چھپ کر وار کرتے ہیں  لیکن کیوں؟ اس لئے کہ قرآن میں اللہ تعالٰی نے فرما دیا کہ دنیا کی زندگی بھی تمہارے لئے ایک قید اور ذلت ہے اور آخرت کی ذلت و رسوائی کے ساتھ دائمی جہنم کی سزا بھی تمہارا مقدر ہے۔ یہ ایسا اس لئے بھی کرنے پر مجبور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آخری نبی حضرت محمد ﷺ سے قرآن میں فرما  دیاکہ یہ یہودی کبھی آپﷺ کے سامنے آ کر مقابلہ اور جنگ نہیں کریں گے اور اگر کبھی یہ ایسا کریں تو آپ ﷺ دیکھیں لیں گے کہ یہ بزدلوں کی طر ح بھاگ کھڑے ہونگے  (ہم نے ) اِن کے دلوں میں دنیا کی محبت اور موت کا خوف ڈال دیا ہے۔یہ کبھی مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر یں گے۔اوریہ بات خود یہود بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم دنیا کے سامنے آ کرکھلم کھولا  کوئی لڑائی  کریں  تو ایسی  صورت میں ہم  تعداد کی قلت کے سبب مقابلہ نہیں کر پائیں گے اور مارے جائیں گےلہذا یہ خود کو بچائے رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی روس کبھی برطانیہ اور دورِ حاضر میں امریکہ کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں۔عیسائی دنیا کو مکمل طور پر یہ اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں اور ایسا کرنے کے لئے انہوں نے پچھلے تین سو سالوں تک خود کو عیسائی دنیا میں مختلف طریقوں سے چھپاتے ہوئے ان کی تہذیب کو مکمل طور پر برباد کر کے رکھ دیا  ہے۔امریکہ برطانیہ اور دیگر عیسائی ممالک میں بسنے والےمسلمان جانتے ہیں کے یہ معاشرے حیوانیت کی آخری حدوں کو پہنچ چکے ہیں ۔عیسائی مذہب اوراقدار نام کی کوئی چیز ان معاشروں میں باقی نہیں رہی۔اس حال تک ان کواہل یہود کے شیطانی دماغوں  نے پہنچایا ہے تاکہ ان معاشروں کی آڑ میں چھپ کر انہی کے وسائل اور افواج کو مسلم دنیا کے خلاف استعمال کر سکیں ۔جو لوگ تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ صلیبی جنگوں  کے اصل محرکات کیا تھے اور ان جنگوں کے پیچھے کون سی شیطانی طاقتیں کار فرما تھیں۔ عیسائیت کےذریعے ایک سو سال تک ان یہود نے صلیبی جنگوں کے نام پرمسلمانوں کے علاقوں پر حملے کرائے جس کے نتیجے میں سُلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے انہیں مار مار کے مہذب دنیا سے نِکال کر سرد ترین علاقوں میں جا چھپنے پر مجبور کر دیا  تھا ۔ سُلطان کے نام سے عیسائی دنیا اِک زمانے تک ایسے ڈرتی رہی ہے جیسے شیر سے جنگل کے باقی جانور ڈرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ یہود و نصارا مسلمان ممالک میں ہمیشہ سازشوں اور خفیہ چالوں کے ذریعے فساد کر کے انہیں کمزور کر تے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ  دوبدو لڑائی اور جنگ میں یہ کبھی مسلمانوں کوشکست نہیں دے سکتے لہذا سازشوں کا سہارا لے کر مسلمانوں کی واحدت اور قوت کو کمزور کرنے میں مصروف رہتے  ہیں ۔یہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں آج بھی صلاح الدین ؒ  جیسے غیور اور بہادر موجود ہیں جو اگر جاگ گئے تو ہمیں مار مار کر دوبارہ بھاگنے پر مجبور کر دیں گے۔یہی وجہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے اتحاد  اور یک جہتی  کو پارا پارا کرنے کی سازشیں کرتےرہتے ہیں۔ان سازشوں میں ان کاسب سے بڑا  ہتھیار مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم کرنا اور آپس میں لڑانا ہے۔دوسرے نمبر پر مسلمان کو اپنے دین و ایمان سے دور کرنا اور  بے حیائی کی طرف راغب کرنا ہے  یہ   جانتے ہیں یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے وہ بغیر جنگ کئے  انہیں ختم کرسکتے ہیں اور ان کے مال و اساب کے ساتھ ان کے علاقوں پر قابض ہو سکتے ہیں۔عیاشی اور فحاشی میں غرق عربوں کو کس طرح گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا  یہ صورتِ حال آج ہم مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں دیکھ رہے ہیں ۔آلِ سعود سعودی عرب میں حکمران  جو اس سارے کھیل میں ان یہودونصارا کے دوست اور جنگ کا  ہیڈکواٹر اور خطے میں بڑا پارٹنر بھی ہے۔عرب ممالک میں سعودی حکومت ایک مکمل امریکی اور یہودی گٹھ جوڑ سے بنی نجدی آلِ سعود کی  دجالی حکومت ہے ۔آلِ سعود جس نے تُرکی کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دیتے ہوئے خلافت کا خاتمہ کرنے میں سب سے بڑا کِردار ادا کیا تھا اور  بدلے میں سعودی شاہی خاندان ہونے کا اعزاز پایا تھا آج بھی خطے میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کا سب سے بڑا خاموش حمائتی یہی آلِ سعود کا  شاہی خاندان ہے۔ فلسطین ،عراق ، یمن اورشام  کے مسلمانوں پرہونے والے ہر حملے اور اس میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں سے لے کر تیل اور زمینی اڈےتک فراہم کرنے والے یہی سعودی حکمران  ٹولہ ہے۔آج پوری اسلامی دنیا میں صرف تُرکی ایک ایسا ملک ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے اس کھیل کے سامنے کھڑا ہونے کی جُرات اور ایمانی غیرت کا مظاہرہ کیا ہے ۔امریکی افواج کو زمینی اڈے فراہم کرنے والے سعودی حکمرانوں نے تُرکی کی اس درخواست کوبھی رد کر دیا تھا جس میں تُرکی نے  سعودی حکومت سے شامی مسلمانوں کی مدد کے لئے تُرک افواج کو زمینی اڈا فراہم کرنے کے لئے درخواست کی تھی۔مُحترم طیب اردوان نے اس رویے پر انتہائی دُکھ اور حیرانی کا اظہار کرتے ہو ئے کہا  کہ غیرمسلموں  کو تو مسلمانوں کو مارنے کے لئے سعودی حکومت نے اڈے فراہم کر رکھے ہیں جبکہ ایک برادر اسلامی ملک کو یہ سہولت نہ دینا  لمحہ فکریہ ہے۔ان حالات میں  یہ بات روزِ روشن کی طرح کھل کے سامنے آ جاتی ہے کہ یہود و نصارا کس طرح سے مسلمانوں کو مارنے کے لئے مسلمانوں ہی کے وسائل اور لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔یہی کچھ مُشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں پڑوسی اسلامی ملک افغانستان کے خلاف  امریکیوں کو اڈے اور دیگر ہر طرح کی سہولتیں فراہم کر کےکیا تھا۔ مسلمان ممالک کی حکومتوں کو امریکی اور یہودی لابیوں نے مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں کھلونا بنا رکھا ہے ۔پاکستانی حکومتیں بھی بدقسمتی سے اس سارے کھیل میں برابر کی شریک ِ جُرم ہیں ۔  فرق صرف یہ ہے کہ یہاں  طریقہ کار ذرا مختلف اپنایا گیا ہے ۔چونکہ پاکستان میں نام نہاد مغربی جمہوری نظام کے برعکس بادشاہت نہیں ہے لیکن شاہی خاندانوں کو یہاں بھی پالا گیا ہے جمہوری ڈرامے میں شاہی خاندانوں کو چھپانے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ انہیں سیاسی پارٹیوں کا نام دے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکیں  لہذا یہاں پی پی پی اور ن لیگ جیسے ناموں سے شاہی خاندانوں کو  پالاگیا ۔جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے سے پہلے تک جو کام یہ شاہی خاندان سیاسی اور عوامی دباؤ جیسی مجبوریوں کی وجہ سے نہیں کر سکتے تھے تو متبادل  میں جی ایچ کیو کی خدمات حاصل کی جاتیں تھیں۔ ۔ مُشرف کا  دور اس سلسلے کا آخری دور ہے ۔لیکن اس کے بعد پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور ان سے تال میل کھاتے اندرونی بیرونی حالات کو دیکھتے ہوئے قدرے ہوشمندی کا ثبوت دیا گیا اور  دہشتگردی کے خلاف لڑنے کی  پالیسی پر از سر نو غور و فکر کیا گیا  تو ملک میں چھپی بیٹھی بہت سی بیرونی  عسکری جماعتیں جن میں نمایاں اور خاص طور پر قابل ذکر ٹی ٹی پی نام نہاد جہادی تنظیم  تھی جسے بھارت ،اسرائیل اور امریکاپاکستان کے خلاف اربوں ڈالر اور افغانستان میں تربیت دے کر پاکستان  میں داخل کر رہی تھی۔ٹی ٹی پی  کے حوالے سےجب  انتہائی خوفناک  اور بیانک احقائق کو دیکھتے ہوئے پاکستانی عسکری اداروں نے ان کے خلاف ایک گرینڈ اپریشن (ضرب غضب) کرنے کا فیصلہ کیا  تو انڈیا ، امریکااور اسرائیل  جوان طالبان کو نہ صرف سپورٹ کر رہے تھے بلکہ بے تحاشہ  ڈالروں سے مالی مدد بھی  فراہم کر رہے تھے  واویلا کرنے لگے  تا کہ کسی طرح سےاس اپریشن کو رکوا کر  پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کر سکیں اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی اور ان پر  پر قبضہ کرنے کے اپنے پرانے خواب کی تکمیل کر سکیں۔کیونکہ یہی وہ حقیقی رکاوٹ ہے جوامریکا اور  اسرائیل کو پاکستان کے خلاف ایک بڑی اور  فیصلہ کن جنگ چھیڑنے کی راہ میں  رکاوٹ  ہے۔اسی طرح نام نہاد این جی اوزکے روپ میں بھی  دہشت گردوں  تنظیمیں پاکستان میں  چھپی بیٹھی تھیں جو ان دہشتگرد تنظیموں کی معاؤن و مددگار تھیں لہذا ان  تنظیموں کے لائسنس منسوخ کئےگئے۔بہت سے نیٹ ورک توڑے گئے جن کا یہاں نام لینا میں مناسب نہیں سمجھتا ۔ملک کی بہت ساری سیاسی جماعتوں کی قیادت برائے راست ملک دشمنی کرتے ہوئے بیرونی طاقتوں کی آلہ کار کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ انہیں سیاسی قیادتیں  نہیں کہنا چاہیے کیونکہ ان لوگوں نے سیاست کے نام پر ملک دشمنی جیسےکام کئیے ہیں ۔میاں نوازشریف کی اداکاری نے تو دلیپ کمار کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔میں اس کا لم کے ذریعے عسکری اداروں کو دو ٹوک الفاظ میں پیغام دینا چاہتا ہوں کہ میاں صاحب اب پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور مکار بن کر اس ملک و قوم کے ساتھ سنجیدہ اداکاری کریں گے اور خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔لہذا ملکی سلامتی کے اداروں کو پہلے سے کہیں زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہو گی۔جبکہ آصف علی زرداری اورمحترمہ فریال (ادی) کو آسان حدف سمجھنا  بےواقوفی ہو گی۔حقیقت یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور سندھ میں ہونے والے ہر چھوٹے بڑے چوری ڈاکے کا کھوراہ  جناب آصف علی زرداری ہی کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔یہ لوگ کسی رحم اور ہمدردی کے حقدار نہیں ہیں ۔جمہوریت کہیں نہیں جائے گی ریاست جتنی جلدی ہوسکے انہیں منتقی  انجام تک پہنچائے ایسا نہ ہو کہیں دیر ہو جائے۔اگر ایسا ہوا تو سمجھ لیں پھر اس ملک و قوم کے ساتھ جو ہو گا اس کا اندازہ کرنا بھی محال ہے۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *