اتوار، 1 ستمبر، 2019

تحریک حریت کشمیر


اقبال اور تحریک آزادی کشمیر


تحریک حریت کشمیر


ازاں مئے فشاں قطرۂ برکشیری
کہ خاکسترش آفریند شرارے
جس زمانہ میں اقبال پیدا ہوئے وہ مسلمانوں کے لئے بے حسی اور ادبار کا زمانہ تھا ہندوستانی 1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کھانے کے بعد ہمت ہار کر ہتھیار ڈال چکے تھے۔ مسلمانوں پر انگریز حاکموں نے بغاوت کا الزام لگا کر ان کی بری طرح سرکوبی کر لی تھی۔ اور بظاہر ان میں ایک نئی زندگی کی تجلی کی کوئی رمق بھی باقی نہیں رہی تھی۔ سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء اس خفتہ قوم کو جھنجھوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش پیہم کر رہے تھے مگر ان میں کوئی حرکت نظر نہیں آ رہی تھی۔
ادھر دنیائے اسلام کا بھی کم و بیش یہی حال تھا۔ مسلمان حکمران یا توغیر ملکیوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے یا اپنی رعایا کے لئے وہ نہایت جابر و قاہر تھے۔ وہ خود عیش و عشرت میں سرشار تھے اور رعایا کو جہالت و افلاس میں سرمست رکھا تھا۔ یورپ کے گدھ ان کو مردار سمجھ کر ان پر ہر طرف ٹوٹ پڑے تھے۔ بقول محمد حسین سید ’’ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رحم کرتے ہوئے ان کی اصلاح اور سدھار کے لئے دنیائے اسلام میں چند باکمال ہستیوں کو مامور کیا۔ ترکی میں مصطفی کمال، ایران میں رضا شاہ پہلوی، مصر میں زغلول پاشا، ہندوستان میں مولانا محمد علی اور ابو الکلام وغیرہ پیدا کئے، ان میں سے کسی نے تو موقعہ مناسبت مل جانے کی وجہ سے اپنا کام پورا کر لیا۔ کسی نے کام کو شروع کر دیا مگر مکمل نہ کر سکے اور کچھ تکمیل کے لئے شب و روز کوشاں رہے۔ امت کی یہ اصلاح و سدھار الگ الگ وطنی اور نسلی بنیادوں پر ہوئی۔ اب ضرورت ایک ایسے معمار کی تھی جو ان مختلف اینٹوں سے ابراہیمی و مصطفویٰ بنیادوں پر ایک نئے حصار کی تعمیر کرے۔ اللہ نے اس کام کے لئے اقبال کو ہندوستان میں پیدا کیا۔‘‘ (1)
عبدالرحمان طارق اس دور میں مسلمانوں کی تاریخ کے ہم عصر اثرات کے رد عمل میں اقبال کے مقام اور رول کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ اقبال ایک ایسے دیدہ ور ہیں جو خود بیدار ہیں اور دوسروں کو بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ وہ طریق عمل میں خود مردانہ وار گامزن ہیں اور دوسروں کو بھی اسی راستہ پر چلانا چاہتے ہیں کہ ان کی قوم بھی اس نعمت عظمیٰ سے سرفراز ہو۔ ان کا سینہ سوز محبت سے اس لئے مالا مال ہے کہ قوم اسے اپنے لئے عام کرے تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شان دوبارہ حاصل کر سکے۔ وہ اسلاف کی عظمت کو بار بار اس لئے یاد دلاتے ہیں کہ مسلمان پھر سے ان کی پیروی کر کے غلامی کی ذلت سے نجات حاصل کر سکیں۔ ان کا دل مسلمانوں کی موجودہ بے حسی اور جمود کو دیکھ کر کڑھتا ہے اسی لئے وہ احساس خودی اور ضبط نفس کے پاکیزہ جذبات کو ایک دفعہ پھر ان کے اندر تروتازہ کر دینا چاہتے ہیں۔ (2)
اس سلسلے میں اقبال کے خیالات میں مسلمانوں کے تنزل اور ابتلا کے بارے میں اس وقت ایک معنی خیز تبدیلی آ گئی جب انہوں نے جارج برنارڈشا کے یہ الفاظ سن لئے کہ ’’ دنیا میں سب سے اچھا مذہب اسلام ہے مگر سب سے بدتر قوم مسلمان‘‘
اس کے بعد وہ ساری عمر اہل اسلام کی ذہنی، فکری، روحانی اور تمدنی زندگی کے نکھار کو اس پسماندہ قوم کی متاع حیات بنائے جانے کی سعی کرتے رہے جس کے واضح اشارے ان کے کلام میں جا بجا ملتے ہیں۔
جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے وہ اقبال کا آبائی وطن ہونے کے ناطے ہمیشہ ان کی نظروں میں رہا۔ اہل کشمیر کے دور غلامی کی تاریک پرچھائیوں کے آر پار ان کی عقابی نظروں نے بغاوت اور انقلاب کے دھارے دریائے جہلم کی لہروں سے پھوٹتے ہوئے دیکھے تھے۔ بقول ممتاز حسن ’’کشمیر کی جدوجہد کا منظر اقبال نے وجدانی طور پر صاف اور واضح دیکھا تھا۔ اس سے قبل کہ کشمیر میں کسی ہل چل کے آثار ظاہر ہوں ان کو نظر آ گیا کہ مطلع پر طوفانی بادل جمع ہو رہے ہیں۔‘‘ (3)
اس سلسلے میں ’’ پیام مشرق‘‘ میں ان کی نظم’’ ساقی نامہ‘‘ جو انہوں نے جون1921ء میں سری نگر میں مشہور مغل باغ نشاط میں تحریر کی تھی، اس واقعہ کی پیشین گوئی ہے جو 1924ء میں کشمیر میں ریشم خانہ کے مزدوروں کے ساتھ پیش آیا۔ اس نظم کے چند اشعار یوں ہیں:
کشیری کی با بندگی خو گرفتہ
بتے می تراشد زسنگ مزارے
ضمیرش تہی از خیال بلندے
خودی ناشنا سے ز خود شرمسارے
بریشم قبا خواجہ از محنت او
نصیب تنش جامہ تار تارے
نہ در دیدہ او فروغ نگاہے
نہ در سینہ او دل بے قرارے
ازاں مئے فشاں قطرۂ بر کشیری
کہ خاکسترش آفریند شرارے
ممتاز حسن ہی کہتے ہیں’’ ایک روز علامہ کی صحبت میں کشمیر کی سیاسی تحریک پر گفتگو ہو رہی تھی۔ علامہ موصوف فرمانے لگے‘‘ میں نے کشمیر سے متعلق جو نظم ساقی نامہ نشاط باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی اس میں ریشم ساز کارخانوں اور کاری گروں کا ذکر بھی شامل تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ بعد میں کشمیر کی سیاسی تحریک وجود میں آئی تو اس کی ابتدا بھی ایک ریشم کے کارخانہ میں کاری گروں کی بغاوت سے ہی ہوئی۔ (4)
اقبال کے ایک او رہم نشین سعادت علی خان بھی ’’ ملفوظات اقبال‘‘ میں اس محفل کا ذکر کرتے ہیں جس میں کشمیر ہی موضوع سخن تھا اور کئی حضرات اس پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ اسی دوران ریشم خانہ کی بغاوت کا ذکر چھڑ گیا تو اقبال یکایک فرمانے لگے کہ ’’ میں تو نبی ہوتا ہوتا رہ گیا۔ حالات نے جاوید نامہ کی طباعت و اشاعت میں تاخیر کر دی ورنہ کشمیر کے اس ہیجان کو تو میں مدت سے دیکھ رہا تھا۔‘‘ (5)
اگر یوں کہا جائے کہ اقبال نے سخن گوئی کے علاوہ اپنی ساری عمر کشمیر اور کشمیریوں کی سیاسی اور اقتصادی آزادی کے لئے وقف کی تھی تو بے جا نہ ہو گا۔ فروری 1896ء میں لاہور میں رہائش پذیر کشمیریوں نے انجمن کشمیری مسلمانان کا قیام عمل میں لایا۔ اس کا مقصد عام طور پر شادی و غمی کے رسوم کی اصلاح اور تعلیم و تجارت وغیرہ کی ترقی کے لئے کوششیں کرنا تھا۔ مولانا غلام رسول مہر نے اس کے ابتدائی عمل کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اسی سال انجمن کا پہلا اجلاس ہوا جس میں مولانا عبدالمجید سالک کے بقول محمد دین فو ق کی فرمائش پر اقبال نے ستائیس اشعار پر ایک نظم پڑھی جس کا عنوان ’’ فلاح قوم‘‘ تھا (6) اور جس میں اقبال نے انجمن کے قیام، اس کے لائحہ عمل اور ا سکی کامیابی پر اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا تھا جو ان کی طالب علمی کے زمانہ کی شاعری کا نمونہ ہے:
کیا تھا گردش ایام نے مجھے محزوں
بدن میں جاں تھی کہ جیسے قفس میں صید زبوں
چڑھائی فوج الم کی ہوئی تھی کچھ ایسے
علم خوشی کا میرے دل میں ہو گیا تھا نگوں
کیا تھا کوچ جو دل سے خوشی کی فوجوں نے
لگائے خیمہ تھی واں رنج کے جنود و قشوں
غم و الم نے جگر میں لگا رکھی تھی آگ
بنا ہوا تھا میرا سینہ رشک صد کانوں
زبس کہ غم نے پریشاں کیا ہوا تھا مجھے
یہ فکر مجھ کو لگی تھی کہ ہو نہ جائے جنوں
جو سامنے تھی میری قوم کی بری حالت
امڈ گیا میری آنکھوں سے خون کا سیحوں
انہی غموں میں مگر مجھ کو اک صدا آئی
کہ بیت قوم کی اصلاح کے ہوئے موزوں
پئے مریض یہ اک نسخہ مسیحا تھا
کہ جس کو سن کے ہوا خرمی سے دل مشحوں
غبار دل میں جو تھا کچھ فلک کی جانب سے
دبے اسی میں رنج و غم بھی صورت قاروں
ہزار شکر کہ اک انجمن ہوئی قائم
یقیں ہے راہ پر آئے گا طالع واژوں
ملے گا منزل مقصود کا پتہ ہم کو
خدا کا شکر کہ جس نے دئیے یہ راہ نموں
ہلال وار اگر منہ میں دو زبانیں ہوں
ادا نہ پھر بھی ہو شکر خداے کن فیکوں
مثال شانہ اگر میری سو زبانیں ہوں
نہ طے ہو زلف رہ شکر ایزاد بے چوں
چلی نسیم یہ کیسی کہ پڑ گئی ٹھنڈک
چمن ہوا میرے سینے میں خار سوز دروں
یہ کیا خوشی ہے کہ دل خود بہ خود یہ کہتا ہے
بعید رنج سے اور خرمی سے ہے مقروں
خوشی سے آ کے خدا جانے کیا کہا اس نے
اچھل رہا ہے مثال تموج جیحوں
کرم سے اس کے وہ صورت فلاح کی نکلی
کہ حصن قوم ہر اک شر سے گیا مصئوں
خدا نے ہوش دیا متفق ہوئے سارے
سمجھ گئے ہیں تیری چال گنبد گردوں
چراغ عقل کو روشن کیا ہے ظلمت میں
ہمارے ہاتھ میں آ جائے گا در مکنوں
مزا تو جب ہے کہ ہم خود دکھائیں کچھ کر کے
جو مرد ہے نہیں ہوتا ہے غیر کا ممنوں
بڑھے یہ بزم ترقی کی دوڑ میں یا رب
کبھی نہ ہوں یہ قدم تیز آشنائے سکوں
اسی سے ساری امیدیں بندھی ہیں اپنی کہ ہے
وجود اس کا پئے قصر قوم مثل ستوں
دعا یہ تجھ سے ہے یا رب کہ تا قیامت ہو
ہماری قوم کا ہر فرد قوم پر مفتوں
جو دوڑ کے لئے میدان علم میں جائیں
سبھوں سے بڑھ کے رہے ان کے فہم کاگگوں
کچھ ان میں شوق ترقی کا حد سے بڑھ جائے
ہماری قوم پہ یا رب وہ پھونک دے افسوں
دکھائے فہم و ذکا و ہنر یہ اوروں کو
زمانے بھر کے یہ حاصل کریں علوم و فنوں
جو تیری قوم کا دشمن ہو اس زمانے میں
اسے بھی باندھ لے اقبال صورت مضموں
1909ء میں اقبال انجمن کشمیری مسلمانان کے جنرل سیکرٹری ہوئے۔ ان کا انتخاب 6 فروری کو ہوا جب انجمن کو اس کے اصل نام یعنی انجمن کشمیری مسلمانان ہند سے تبدیل کر کے اسے پنجاب کے کشمیریوں کے مفادات تک محدود کیا گیا۔
اس سے قبل 1907ء میں جموں میں بھی انجمن کشمیریان جموں کے نام سے اسی قسم کی ایکا ور جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا لیکن اس کے عہدیداروں اور چند برگزیدہ کارکنوں کی باہمی رسہ کشی اور رقابت کی وجہ سے اس کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ اقبال کو اس صورت حال سے بے حد رنج ہوا اور انہوں نے ’’ کشمیری میگزین‘‘ کے ستمبر1909ء کے شمارہ میں’’ انجمن کشمیریان جموں کا حشر‘‘ کے عنوان سے ایک عبرت آموز شذرہ قلم بند کیا جس کی ابتدا انہوں نے ایک نہایت ہی زور دار اور طنزیہ شعر سے اس طرح کی:
ایک وہ ہیں کہ نیا رنگ جما لیتے ہیں
ایک ہم ہیں کہ بنا کر بھی مٹا لیتے ہیں
اقبال اس مختصر سے مضمون میں افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ’’ دو سال سے کچھ زائد عرصہ گذرا کہ راقم الحروف نے کشمیری میگزین کے توسط سے انجمن کشمیریان جموں کے انعقاد کی خوشخبری اپنے بھائیوں کو سنائی تھی اور بانیان و حامیان انجمن کے سرسبز اور نہایت مفید ثابت ہونے کا خیال ظاہر کیا تھا اور خداوند ذوالجلال سے اس کی عمر درازی اور ترقی پذیر ہونے کے لئے بصد عجز و نیاز دعا کی تھی۔افسوس ہزار افسوس کہ اس دعا کی در اجابت تک رسائی نہ ہوئی اور خاکسار کا خیال غلط نکلا۔ ہائے وہ اٹھتا ہوا بلا کا جوش کدھر گیا اور وہ غیر معمولی سرگرمی کدھر گئی؟‘‘
1896ء میں اقبال سیالکوٹ سے نئے نئے لاہور آئے تھے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے طالب علم تھے ’’ فلاح قوم‘‘بعد میں ان کے ولایت سے واپس آنے کے بعش کشمیری میگزین کے مارچ1909ء کے شمارہ میں ان کی نظر ثانی اور اجازت کے بعد شائع ہوئی۔ اقبال نے اپنے جو قطعات کشمیر انجمن کشمیری مسلمانان لاہور ہی کے اجلاس میں پڑھ کر سنائے تھے ان میں سے ایک قطعہ ہے:
سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر
چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر
در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں
مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر
اس قطعہ کا آخری مصرعہ ساری عمر’’ اخبار کشمیر‘‘ لاہور کا ماٹو رہا۔ یہ آٹھوں قطعات بعد میں کشمیری میگزین کے اکتوبر1909ء کے شمارہ میں بھی شامل کئے گئے اور اس کتاب میں کسی دوسری جگہ درج ہیں۔
1909ء میں جب انجمن کشمیری مسلمانان کی تشکیل کے موقعہ پر اس کے عہدیدار منتخب ہوئے تو اس کی تنظیمی شکل یہ رہی:
صدر: خان بہادر خواجہ عبداللہ بخش
نائب صدر: میاں شمس الدین رئیس میونسپل کمشنر، خواجہ کریم بخش، اکاؤنٹنٹ، میاں نظام الدین رئیس، خواجہ کمال الدین بی اے وکیل، شیخ محمد کاظم سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات، سید محمد شاہ وکیل حاجی میر شمس الدین اور ڈاکٹر محمد دین ناظر۔
جنرل سیکرٹری: ڈاکٹر شیخ محمد اقبال، ایم اے پی، ایچ، ڈی، بار ایٹ لا
جوائنٹ سیکرٹری: منشی حیدر محمد ہیڈ کلرک ریلوے
اسسٹنٹ سیکرٹری: محمد دین فوق
فنانشل سیکرٹری: منشی معراج الدین، ڈرافٹس مین ریلوے
محاسب: منشی قادر بخش، اکاؤنٹنٹ نوٹ گھر
ان کے علاوہ خواجہ رحیم بخش، ای اے سی، منشی محمد حفیظ، شیخ خان محمد ڈپٹی پوسٹ ماسٹر، بابو نبی بخش بی اے انسپکٹر ڈاک خانہ جات، شیخ محمد دین ایم اے پروفیسر مشن کالج لاہور، (آنریبل جسٹس و سابق گورنر سندھ) شیخ برکت اللہ ڈپٹی انسپکٹر مزنگ، منشی احمد دین اکاؤنٹنٹ نہر، بابو نبی بخش ٹھیکیدار ریلوے، خواجہ امیر بخش ہیڈ کلرک محکمہ جنگلات وغیرہ نہ صرف کشمیری برادری کے چند درخشندہ ستارے تھے بلکہ لاہور کی تمام قوم کے سر بر آوردہ رکن تھے کیونکہ ان میں اکثر افراد ایسے بھی تھے جن کا کسی نہ کسی حیثیت سے مسلمانوں کی ہر جماعت بالخصوص انجمن حمایت اسلام سے گہرا تعلق تھا۔ (7)
دسمبر1908ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس امرتسر میں منعقد ہوا۔ آنریبل نواب بہادر خواجہ محمد سلیم اللہ خان آئی سی آئی ای، نواب آف ڈھاکہ اس کے صدر تھے۔ چونکہ وہ بھی کشمیری تھے اس لئے کشمیری برادری کے بہت سے بزرگ شوق ملاقات میں پنجاب کے مختلف شہروں سے کھنچ کر امرتسر پہنچے۔ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور نے نواب صاحب کی خدمت میں ایک سپاس نامہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ 27دسمبر کو ایک وفد غیر رسمی طور پر ایڈریس کا وقت مقرر کرنے کی خاطر سرکٹ ہاؤس امرتسر میں حاضر ہوا۔ اس وفد میں خان بہادر خواجہ اللہ بخش، مولوی احمد دین وکیل، خواجہ رحیم بخش، خواجہ امیر بخش، حاجی میر شمس الدین جنرل سیکرٹری انجمن حمایت اسلام، منشی غلام محمد خادم، منشی محمد دین فوق، بابو غلام حسین اور بابو حیدر محمد خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
خان بہادر اللہ بخش نے ہر ایک کا تعارف کرایا اور حاضری کی علت نمائی بیان کی۔ نواب صاحب نے دست شوق بڑھا کر ہر ایک سے مصافحہ کیا اور وفد سے ملنے کے لئے 28دسمبر کی شام کا وقت مقرر کیا۔ چنانچہ دوسرے روز سیالکوٹ، امرتسر، راولپنڈی، سرگودھا، گوجرانوالہ، لائل پور، لدھیانہ، گور داس پور، وزیر آباد، ڈیرہ غازی خان، جیکب آباد، سندھ وغیرہ کے نمائندوں کا ایک وفد مقررہ وقت پر سرکٹ ہاؤس امرتسر پہنچا۔ اقبال اس وفد میں شامل تھے۔ انہوں نے نہایت بلند آواز سے فارسی زبان میں سپاسنامہ پڑھا۔
اس سپاس نامہ میں نواب صاحب کے خیر مقدم کے بعد ترک کشمیر کا تذکرہ تھا او رپھر لکھا تھا کہ کشمیری قوم نے باوجود اجنبی ہونے کے علو م و فنون اور حصول مراتب و وجاہت میں وہ کشش کی ہے کہ مقامی اقوام ان کی ذہانت اور طباعی دیکھ کر دنگ رہ گئی ہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے قومی بھائیوں یعنی اہل خطہ مسلمانان پنجاب کی سرپرستی قبول فرمائیں تاکہ جمعیت قومی کا شیرازہ بکھرنے نہ پائے اور ہماری ضروریات قومی اور حفاظت حقوق کی کوششیں جاری رہ سکیں۔
محمد عبداللہ قریشی کے بقول چونکہ یہ سپاسنامہ نایاب ہے لہٰذا انہوں نے اسے اقبال کی ایک یادگار سمجھ کر من و عن یوں نقل کیا ہے:
الحمد اللہ امروز ساعت سعید بل روز عید کہ اہل خطہ ا ز مختلف مقامات صوبہ پنجاب بخدمت اقدس برائے خیر مقدم جناب والا حاضر شدیم واز شرف ملقات مشرف گشتیم:
اے آمدنت باعث آبادی ما
ذکر تو بود زمزمہ شادی ما
پوشیدہ نیست کہ اسلاف بغرض سیر و سیاحت و ترقی تجارت و حصول روزگار
راہ غربت گرفتند واز قطعہ جنت نظیر خویش انفراق نمودہ دریں ملک ہندوستاں بہ مقامات مختلف اقامت در زید ندو در صورت اجنبی زندگانی می کردند۔
ہنگامے کہ آفتاب اقبال مغربیہ بہ ہندوستان طلوع نموداقوام مختلف ایں دیار از علوم مغربیہ بہرہ اندوز گشتند، دراں زماں ایں بزرگان خطہ باوجود مشکلات مہاجرت دریں راہ قدم نہادند و افتاں و خیزاں خویشتن را بجاے رسانید ند کہ امروز باعتبار علوم فنون و حصول مراتب و وجاہت دنیویہ واد اے فرائض دینیہ وبہ نظر تہذیب اخلاق و خیر خواہی دولت انگلشیہ در صف اقوام ترقی یافتہ گرفتند، ازاں جاکہ اہل خطہ را از فضل ایزد منان در ملک ہندوستان جمعیت قوم بحصول پیوستہ کشمیریان صوبہ پنجاب بہ کمال آرزو مندی برائے قبولیت عہدہ پیترن (Patron) بعضو روالا عرض رسان اندوامید دارند کہ جناب والا از منظوری ایں درخواست جملہ برادران خطہ را مشکور و ممنون سازندو و در انصرام ضروریات قومی و حفاظت حقوق اہل خطہ بیشتر از پیشتر سعی فرمایند۔
ما ازاں خیر خواہی دولت برطانیہ کہ از طریق عمل جناب ظاہر و ثابت شدہ است دمی شود بہ خودمی نازیم:
از بیم جان و مال ہراساں نہ گشتہ
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
گورنمنٹ عالیہ کہ ازراہ الطاف خسروانہ اعزاز بزرگ یعنی عہدہ ممبر کونسل ہائے جناب والا صفات را عطا فرمودہ است ما اہل خطہ شکریہ این نعمت ادا کردن نمی توانیم دبد رگاہ خداوند کریم دعا کنیم کہ حکومت برطانیہ را بر جادہ مستقیم بر قرار دارد:
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد
نواب صاحب نے اس سپاس نامہ کا جواب انگریزی میں دیا جس کا خلاصہ یہ ہے:
’’ صاحبو! نہیں نہیں بھائیو! میں آپ کے سپاسنامہ اور ملاقات سے بہت خوش ہوا۔ میں اس وقت اپنے بھائیوں کے درمیان ہوں اور ان کی ہر خدمت کے لئے جو مجھ سے ممکن ہو سکے حاضر اور تیار ہوں۔ آپ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں آپ کی قومی انجمن کا Patron (مربی) بنوں میں ہر چند اس قابل نہیں لیکن آپ کی خوشی کو مد نظر رکھ کر آپ کی خواہش منظور کرتا ہوں اور خوش ہوں کہ میری قوم حکومت کی وفادار اور جاں نثار ہے۔‘‘ (8)
ایجوکیشنل کانفرنس کے خطبہ صدارت میں نواب صاحب نے اعزاز صدارت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا’’ اگرچہ میری صحت اجازت نہیں دیتی تھی کہ میں اتنی د ور کا سفر اختیار کروں اور اس شاندار مجمع میں شریک ہوں مگر آپ حضرات کے اخلاص نے مجھے مجبور کیا اور ڈھاکہ سے یہاں تک کھینچ لایا۔ ڈھاکہ امرتسر سے سینکڑوں میل پر واقع ہے مگر میں یقین کرتا ہوں اور یقین کرے کی کافی وجوہ میرے پاس موجود ہیں کہ میں اپنے وطن میں ہوں۔ میرے خیال میں امرتسر کی آبادی پنجاب میں بہ لحاظ کشمیری آبادی کے بہت زیادہ ہے اور اپنے خواص اور پیداوار اور صنائع کے اعتبار سے ثانی سری نگر ہے اور شاید آپ حضرات واقف ہوں گے کہ میں کشمیری الاصل ہوں۔ اس حیثیت سے اپنے موجودہ وطن سے جس قدر آگے بڑھوں گا اصلی وطن یعنی کشمیر مجھ سے قریب تر ہوتا جائے گا۔‘‘
اقبال کی تحریک سے نواب صاحب نے 5فروری 1909ء کو ایسریگل لیجسلیٹو کونسل کے اجلاس میں حکومت ہند سے یہ سوال بھی پوچھا کہ آیا کشمیری فوج میں بھرتی ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہو سکتے ہیں تو آج کل کتنے کشمیری سرکاری فوجوں میں ہیں؟ نیز امرتسر اور سرحد کشمیر پر جو کشمیری آباد ہیں کیا وہ پنجاب کے قانون انتقال اراضی کی تعریف میں شامل ہیں یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں حکومت ہند کی طرف سے کہا گیا کہ کشمیری قوم کے فوج میں بھرتی ہونے پر کوئی روک ٹوک نہیں مگر رجمنٹوں میں چونکہ اس کی کلاس کمپوزشن نہیں یعنی کوئی کمپنی پلٹن میں یا کوئی ٹروپ رسالہ میں کشمیریوں کے لئے نہیں اس لئے ہندوستانی فوج میں کوئی کشمیری بھرتی نہیں ہوتا۔
اسی طرح حکومت کی طرف سے یہ جواب بھی دیا گیا کہ جو کشمیری امرتسر اور حدود کشمیر میں رہتے ہیں پنجاب کے قانون انتقال اراضی سے ان پر کچھ خراب اثر نہیں پڑا۔ پنجاب میں کاشتکار قوم مشتہر ہونے کے لئے کشمیریوں کو حکومت پنجاب سے درخواست کرنی چاہیے۔ پنجاب گورنمنٹ کو حکومت ہند سے دریافت کئے بغیر ہر قوم کو کاشتکار مشتہر کر دینے کا اختیار ہے۔ (9)
اس سلسلہ کو آگے بڑھانے کی غرض سے اقبال نے کئی مراسلے اس وقت سرگرم عمل احباب کو لکھے تاکہ ان مساعی کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے آ سکے۔ ان خطوط میں وہ عام طور پر فوجی بھرتی اور حصول اراضی کی ضرورت اور اہمیت، برادری اور حکام دونوں پر واضح کرتے رہے۔
ایک مراسلہ محمد دین فوق کے نام یوں تحریر کیا:
برادر مکرم و معظم، السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ ہمارے مربی و محسن جناب سر آنریبل خواجہ محمد سلیم اللہ صاحب نواب بہادر کے سی ایس، آئی سی آئی ای نواب ڈھاکہ نے 5 فروری 1909ء کو وائسریگل کونسل میں کشمیریوں کے متعلق فوج اور زمینداروں کی بابت سوالات پیش کئے تھے۔ فوج کے متعلق تو صاحب بہادر کمانڈر انچیف افواج ہند لارڈ کچنر (10) نے فرمایا کہ کشمیری مسلمانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کے لئے کوئی رکاؤٹ نہیں ہے اگرچہ کشمیریوں کی کوئی کمپنی یا سکاڈرن علیحدہ موجود نہیں ہے۔ اس امر کے متعلق انجمن کشمیری مسلمانان لاہور علیحدہ کوشش کر رہی ہے مگر فی الحال میں آپ کی توجہ دو سوالوں کی طرف منعطف کرنا چاہتا ہوں۔
زراعت پیشہ اقوام کے متعلق جو جواب نواب صاحب کے سوال کا دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ لوکل گورنمنٹ جس قوم کو مناسب سمجھتی ہے اقوام بندی زمینداری میں شامل کر لیتی ہے۔ گورنمنٹ پنجاب کو یہ دونوں سوال اور جواب زمینداری کے متعلق حضور وائسرائے بہادر نے بھیجے تھے۔ گورنمنٹ ممدوح نے حکم جاری فرمایا کہ کمشنر اپنے اپنے علاقے کی مفصل رپورٹ کریں کہ آیا کشمیری مسلمان اقوام بندی زمینداری میں شامل کر لئے جائیں یا کئے جانے کے لائق ہیں۔ کمشنر صاحب بہادر نے ڈپٹی کمشنروں کے نام حکم صادر فرمایا ہے کہ وہ ان کو اس معاملہ میں مدد دیں۔ ڈپٹی کمشنروں نے تمام کشمیری زمینداروں کی ایک فہرست مرتب کروائی ہے جس سے ان کو معلوم ہو گا کہ پنجاب میں کتنے کشمیری زراعت پیشہ ہیں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب سیالکوٹ کا حکم نہایت صاف ہے۔ انہوں نے تحصیلداروں سے چار امور دریافت فرمائے ہیں یعنی۔
1قوم کشمیری کے افراد کا عموماً کیا پیشہ ہے؟
2کس قدر کشمیری ایسے ہوں گے جن کا گذارہ صرف زراعت کاری پر ہے؟
3اگر وہ مالکان اراضی ہیں تو کب سے انہوں نے زمین حاصل کر لی ہے؟
4 کوئی کشمیری دخیل کار ہے یا نہیں؟
اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ مفصلات اور شہروں میں بود و باش رکھنے والے زراعت پیشہ کشمیریوں کی جو فہرست تیار ہو گی اس میں مندرجہ بالا چار امور کا خیال رکھا جائے گا۔
آپ مہربانی کر کے تحصیلدار صاحبوں کو اس فہرست کے مرتب کرنے میں خود بھی امداد دیں اور دیکھیں کہ یہ فہرست بموجب حکم ڈپٹی کمشنر بہادر تیار کی جاتی ہے یا نہیں۔ تمام اہل خطہ کو جو آپ کے علاقہ میں رہتے ہیں اچھی طرح سمجھا دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے گاؤں میں فہرست تیار کرنے میں امداد دیں تاکہ مکمل فہرست تیار ہو سکے اور ہماری گورنمنٹ کو معلوم ہو جائے کہ کشمیری کس قدر پنجاب میں زمیندار ہیں اور زمینداری کا کام کرتے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ یہ فہرست بموجب حکم صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر تیار نہیں ہوئی تو صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں مودبانہ درخواست کریں کہ وہ ان کے بموجب حکم تیار کرنے کا صادر فرمائیں۔
جو نقشہ کہ تیار ہو رہا ہے اس کی ایک نقل انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے پاس جس قدر جلد ممکن ہو سکے ارسال فرمانے کی کوشش کریں۔
یہ چٹھی اپنے بھائیوں کو جو مفصلات میں رہتے ہیں جلدی بھیج دیں تاکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ کس قسم کی فہرست ہونی چاہئے۔ اگر وہ دیکھیں کہ فہرست بموجب حکم بالا تیار نہیں ہوئی یا نہیں ہوتی تو وہ آپ کی معرفت صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے خط و کتابت کریں۔
اس غرض کے لئے کہ مندرجہ بالا تمام قوم کے افراد متفقہ طور پر اپنی بہبودی کے لئے کوشش کریں نیز دیگر امور کے لئے جو قوم سے بحیثیت مجموعی تعلق رکھتے ہوں میں تحریک کرتا ہوں کہ آپ اپنے سنٹر (مرکز) میں ضرور کشمیر مجلس قائم کریں۔ اس کے علاوہ ہر ایسے مقام میں جہاں آپ کا اثر ہو اپنے دیگر بھائیوں کو کشمیری مجلس قائم کرنے کی ترغیب بھی دیں کیونکہ اس طریق سے نہ صرف قوم کے افراد میں اتحاد و یگانگت کی صورت پیدا ہو گی بلکہ قومی حقوق کی حفاظت اور توسیع میں بھی سہولت ہو گی۔ (11)
خاکسار
محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لا
جنرل سیکرٹریا نجمن کشمیری مسلمانان لاہور (12)
دوسری چٹھی جو اقبال نے اراکین انجمن کشمیر مسلمانان کے نام ارسال کی۔ یہ تھی:
برادر مکرم و معظم، السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کی طرف سے پہلے بھی مسئلہ زمینداری کے متعلق ایک مطبوعہ چٹھی بعض قومی کمیٹیوں اور بزرگان قوم کی خدمت میں ارسال کئے جانے کے علاوہ کشمیری میگزین بابت مئی 1909ء میں شائع ہوئی ہے جو امید ہے تمام برادران کی نظر سے گذری ہو گی۔ اس مسئلہ پر دیگر قومی کمیٹیوں کے علاوہ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور بھی غور کر رہی ہے۔ بلکہ اس نے ایک چٹھی بخدمت صاحب سینئر سیکرٹری جناب لیفٹیننٹ گورنر صاحب بہادر صوبہ پنجاب بدین مضمون ارسال کی ہے کہ کشمیری زمینداروں کی فہرست اقوام بندی صرف ضلع سیالکوٹ و گورداس پور تک ہی محدود نہ رہے بلکہ یہ حکم ازراہ الطاف خسروانہ دیگر اضلاع مثلاً گوجرانوالہ، لاہور، امرتسر، جہلم، راولپنڈی، لدھیانہ، اٹک، ہزارہ وغیرہ میں بھی جہاں کشمیری آبادی کثرت سے ہے نافذ کیا جائے۔ صاحب ممدوح کی خدمت میں ایک نقشہ بھی اس مضمون کا ارسال کیا گیا ہے کہ فہرست کس طریق سے تیار ہونی چاہئے۔ جواب آنے پر سب بھائیوں کو بذریعہ میگزین اطلاع دی جائے گی۔
فوجی مسئلہ کی ضرورت اور اہمیت سے بھی انجمن غافل نہیں ہے۔ اس معاملہ کے متعلق خاموشی اس لئے ہے کہ ہمارے مربی و محسن نواب بہادر سر خواجہ محمد سلیم اللہ صاحب بہادر کے سی ایس، آئی سی آئی ای نواب آف ڈھاکہ نے اپنی ایک تازہ چٹھی بنام جنرل سیکرٹری انجمن کشمیری مسلمانان لاہور میں وعدہ فرمایا ہے کہ وہ صاحب کمانڈر ان چیف بہادر افواج ہند سے ملاقات کر کے اس سلسلہ کی نسبت فرمائیں گے۔ اب نواب صاحب ممدوح کو تمام امور متعلقہ خدمات فوجی سے آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ پوری واقفیت حاصل کر کے حضور کمانڈر انچیف بہادر سے گفتگو کر سکیں اور صراحت و وضاحت سے اپنے بھائیوں کی مردانگی اور جاں نثاری اور ان کی فوجی خدمات کا تذکرہ کر سکیں۔ ایسا مصالحہ بہم پہنچانا معمولی بات نہیں ہے اور نہ ہی ایک شخص یا ایک کمیٹی کا کام ہے جب تک تمام برادری متفقہ کوشش سے اس میں ہاتھ نہ بٹائے گی یہ کام سر انجام نہ ہو گا۔ اس لئے سب بھائیوں کی خدمت میں گذارش ہے کہ وہ کشمیری انجمن لاہور کو اس معاملے میں مدد دیں اور نقشہ ملازمان اہل خطہ فوج کو جو لف ہذا ہے اچھی طرح سے پر کر کے جتنی جلدی ہو سکے جنرل سیکرٹری کو واپس ارسال فرمائے تاکہ نواب صاحب بہادر کی خدمت میں افواج ہند کے کشمیری بہادروں کی مکمل فہرست ارسال کر دی جائے۔ آپ ہر گز یہ خیال نہ فرمائیں کہ اس نقشہ سے کسی طرح ہمارے ان بھائیوں کو جو اس وقت صیغہ فوج میں ملازم ہیں نقصان پہنچے گا۔ نقصان پہنچنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ گورنمنٹ آف انڈیا اور خود کمانڈر انچیف بہادر تسلیم کر چکے ہیں کہ کشمیری مسلمان فوجوں میں ملازم ہیں۔ ان کے لئے کوئی بندش اور رکاؤٹ نہیں ہے البتہ ان کی تعداد تھوڑی ہے۔ لاہور کی کمیٹی جس میں ہماری برادری کے اکثر اہل الرائے اور قانون دان بزرگ شامل ہیں اپنے بھائیوں کے اس خیال پر کافی سے زیادہ غور کر چکی ہے اور وہ ہر طرح مطمئن ہے بلکہ ایسی فہرستوں کے مرتب ہونے سے قومی فائدہ کی بہت بڑی توقع رکھتی ہے۔
کمیٹی کوشش کر رہی ہے کہ ہمارا ایک Deputation جس میں ہماری برادری کے معزز فوجی پنشن یافتہ عہدہ دار خصوصیت سے شامل ہوں بہ سر پرستی نواب بہادر آف ڈھاکہ صاحب بہادر کمانڈر انچیف کی خدمت میں اس غرض سے حاضر ہو کہ کشمیری مسلمانوں کی رجمنٹ یا مختلف رجمنٹوں یا رسالوں میں کمپنی علیحدہ بنائے جانے کا حکم صادر فرمایا جائے۔ اگرچہ برادران قوم نے فہرستیں اور نقشے مکمل کر کے جلد تر واپس کر دئیے تو غالب توقع ہے کہ رجمنٹ ضروری ہماری گذارش پر توجہ فرمائے گی۔
اس چٹھی کے ساتھ علاوہ نقشہ ملازمان اہل خطہ فوج کے ایک نقشہ مردم شماری اہل خطہ کا بھی ہے۔ اس کی خانہ پری بھی ضروری ہے، اس نقشہ سے نہ صرف اپنی برادری کی صحیح مردم شماری ہی دریافت کرنا مقصود ہے بلکہ یہ امر بھی جیسا کہ نقشہ کے ملاحظہ سے آپ کو معلوم ہو جائے گا مدنظر ہے کہ قوم کے خواندہ اور نا خواندہ اور بیکار اور با کار اصحاب کا حال بھی معلوم ہو جائے تاکہ کمیٹی حتی المقدور اپنے بھائیوں کو کسی قسم کی امداد پہنچا سکے۔ دنیا اس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ بغیر تعلیم کے کوئی قوم زندہ قوموں میں شمار نہیں ہو سکتی۔ جس قدر قومیں آج آپ کو مہذب، شائستہ اور ترقی یافتہ نظر آتی ہیں وہ سب علم کے زینے سے ہی آسمان عروج و کمال کو پہنچی ہیں۔ا ٓپ کو بھی یاد رہے کہ آپ میں بھی وہ سچے موتی و جواہر موجود ہیں جن کی چمک دمک سے دنیا حیران اور خیرہ ہو سکتی ہے لیکن صرف جلا کی ضرورت ہے اور جلا تعلیم کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے۔
آخر میں پھر یہ گذارش کرتا ہوں کہ دونوں نقشے فوجی اور مردم شماری بہت جلد پر کر کے واپس ارسال فرمائیں۔ اگر یہ نقشے ختم ہو جائیں تو آپ لاہور کمیٹی سے اور طلب فرما سکتے ہیں۔ یا اسی نمونے کے اور نقشے دستی بنا سکتے ہیں۔(13)
قوم کا خادم
(ڈاکٹر شیخ ) محمد اقبال، ایم اے بیرسٹر ایٹ لاء لاہور
انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کی بنیادوں پر بعد میں آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس لاہور عالم وجود میں آئی جس نے اہل کشمیر میں بیداری پیدا کرنے اور تعلیمی پستی دور کرنے میں بڑا کام کیا۔ اس کانفرنس کے پہلے جنرل سیکرٹری بھی اقبال ہی تھے۔ بعد میں سید محمد محسن شاہ بی اے ایل ایل بی اس کے سیکرٹری ہو گئے تھے۔
ان ایام میں خواجہ احمد شاہ رئیس لدھیانہ اور خواجہ یوسف شاہ رئیس امرتسر پنجاب کونسل کے ممبر تھے۔ وہ دونوں کشمیری تھے اور قومی معاملات میں خوب دلچسپی لیا کرتے تھے۔ خواجہ احمد شاہ کی طرف سے لاہور میں انگریزی اخبار’’ پنجاب اوبزرور‘‘ جاری تھا جس کے ایڈیٹر مختلف وقتوں میں شیخ عبدالقادر، شیخ عبدالعزیز اور ملک برکت علی رہے۔ شیخ عبدالعزیز اپنے آپ کو’’ اعزازی کشمیری‘‘  کہا کرتے تھے ادھر فوق صاحب کشمیری میگزین میں کشمیری مسلمانوں کی بے کسی اور حکومت کشمیر کی بے توجہی کا حال بیان کرتے رہتے۔ لیکن اخباروں کی چیخ و پکار اور کشمیری کانفرنس کے مقرروں کی دھواں دھار تقریروں کے باوجود دربار کشمیر کسی مطالبہ پر کان نہیں دھرتا تھا بلکہ قرار دادوں اور شکایتوں کے پہنچنے کی رسید تک نہ دیتا تھا۔
یہ حالات نہایت مایوس کن اور حوصلہ شکن تھے لیکن ارکان کانفرنس نے ہمت نہ ہاری۔ آخر ان کے عزم و استقلال کی بدولت ایک وقت آیا جب قرار دادوں کی رسیدیں بھی آنے لگیں۔ حکام سے ملاقاتیں بھی ہونے لگیں اور کانفرنس کے وفد مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے سامنے اصالتاً اپنی شکایات پیش کرنے لگے۔ دو ایک موقعوں پر اقبال نے بھی ان میں شامل ہو کر کشمیری کانفرنس کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔
1909ء یا 1910ء کی بات ہے کہ ایک مرتبہ کشمیری کانفرنس کا وفد مہاراجہ پرتاپ سنگھ والئی کشمیر کی خدمت میں بمقام کشمیر ہاؤس لاہور جانے والا تھا۔ فوق صاحب ا قبال کو بلانے گئے اقبال ان دنوں انار کلی والی بیٹھک میں رہتے تھے۔ا نہوں نے یہ کہہ کر جانے سے انکار کر دیا کہ ’’مہاراج دن کے بارہ بجے سے پہلے کسی مسلمان کا منہ دیکھنا پسند نہیں کرتا اور میں کسی وقت بھی اس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا۔ غضب خدا کا ایک ایسا شخص جس کے شہر جموں کا نام صبح ہی صبح لینا نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو تک منحوس سمجھتے ہیں اس منحوس شہر کا رہنے والا مسلمان کو منحوس سمجھ کر اس کی شکل سے نفرت کرتا ہے؟‘‘
فوق صاحب نے کہا یہ بات تو صحیح ہے کہ مسلمان بارہ بجے سے پیشتر اس کے پاس نہیں جا سکتے لیکن اس کی ایک وجہ بھی ہے وہ یہ کہ مہاراجہ صبح سویرے اٹھ کر اشنان کرنے کے بعد پوجا پاٹھ کرتے ہیں۔ برہمن ان کے گرد ہوتے ہیں اس میں کافی وقت صرف ہو جاتا ہے۔ پھر حقہ بھرا جاتا ہے۔ جس کے کش لگاتے لگاتے کھانے کا وقت ہو جاتا ہے اور خواہ مخواہ بارہ بج جاتے ہیں۔ تب کہیں جا کر ان کو برہمنوں اور رسوئی کے کام سے فرصت نصیب ہوتی ہے۔ اسی لئے وہ اپنے وزیروں اور بڑے بڑے اہلکاروں کو بھی بارہ بجے دوپہر سے ایک بجے تک ہی جے جے اور سلام کا موقع دیا کرتے ہیں۔لیکن ان باتوں سے اقبال کی تسلی کب ہو سکتی تھی، انہوں نے ایک نہ سنی اور نہیں آئے۔ وفد کے باقی ممبر وقت مقررہ پر کشمیر ہاؤس پہنچے۔ انہیں ایک چھوٹے سے خیمے میں بٹھایا گیا۔ دیوان امر ناتھ چیف منسٹر تھے وہ کچھ گھبرائے ہوئے سے تھے۔ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے باہر باہر آ جاتے اور پھر خیمے میں آ کر باتوں میں مشغول ہو جاتے۔ ملاقات کا وقت آٹھ بجے شام تھا۔ مگر جب نو بج چکے تو ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور دیوان صاحب کو خیمے سے باہر لے گیا معلوم ہوا کہ مہاراجہ صاحب جو کسی کو اطلاع دئیے بغیر اپنے گوروجی کے پاس چلے گئے تھی اور جن کی تلاش میں دیوان صاحب پریشان ہو رہے تھے تشریف لے آئے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد سب کو بڑے کمرے میں بلایا گیا غالباً اواخر دسمبر کے دن تھے کمرے میں انگیٹھی جل رہی تھی اور مہاراجہ صاحب گاؤ تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ سب سلام کر کے فرش پر بیٹھ گئے کچھ معروضات پیش کیں۔ مہاراجہ صاحب نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ دیوان صاحب آپ سے گفتگو کر چکے ہیں۔ وہ آپ کی باتوں کا خیال رکھیں گے۔ سرکار کو خود بھی خیال ہے۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔
سب سلام کر کے چلے آئے لیکن حیران تھے کہ یہ کیسی ملاقات ہے۔ ایک طرف تو دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے اور دوسری طرف نشتند و گفتند و ند خاستند کا معاملہ ہوا۔
پہلے وفد کی ناکامی کے بعد جب دوسرے سال مہاراجہ صاحب لاہور آئے تو کانفرنس نے پھر وفد لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس دفعہ ایک میورنڈم بھی تیار کیا گیا جس کا لہجہ کس قدر تلخ تھا۔ دیوان بشن داس ہوم منسٹر اور وزیر تعلیمات تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس تحریر سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ بہتر یہ ہے کہ جو کچھ کہنا ہو زبانی کہہ دیجئے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اس وفد میں آنریبل خواجہ یوسف شاہ ممبر کونسل پنجاب، خان بہادر اللہ بخش اور سید محسن شاہ وغیرہ شامل تھے۔ ریاست کی طرف سے اس موقعہ پر دیوان بشن داس ہوم منسٹر، خان بہادر شیخ مقبول حسین ریونیو منسٹر اور ایک دو اور معزز افسر موجود تھے۔ جب مہاراجہ کی ایما سے سب کرسیوں پر بیٹھ گئے تو آپ نے چھوٹتے ہی فرمایا۔ سرکار ہمیشہ فرشی دربار کیا کرتے ہیں لیکن آپ کی خاطر آج کرسیوں کا دربار لگایا گیا ہے۔
ارکان وفد نے شکریہ ادا کیا پھر خان بہادر شیخ غلام صادق، آنریبل خواجہ یوسف شاہ اور خان باہدر خواجہ اللہ بخش باری باری مسلمانان کشمیر کی تعلیمی اور اقتصادی پس ماندگی کا ذکر کرتے رہے اور مہاراجہ کو ان کی فلاح و بہبود کی طرف توجہ دلاتے رہے۔
مہاراجہ نے جو کچھ جواب میں ارشاد فرمایا اس سے معلوم ہوتا تھا کہ دیوان بشن داس صاحب ان سے میمورنڈم کے تند و تلخ لہجہ کا ذکر کر چکے تھے۔ آپ نے فرمایا’’ سرکار کو ساری خبر ہے کہ لیڈر کس طرح بنا کرتے ہیں۔ جو شخص بہت باتیں کرتا ہے بس وہ لیڈر ہے۔ جو ہندو مسلم فساد کرانے میں سب سے پیش پیش ہے بس وہ لیڈر ہے۔ جو فرقہ وار مطالبات پر زور دیتا ہے بس وہ لیڈر ہے، آپ لوگوں کو اگر اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ایسی ہی ہمدردی ہے تو کشمیر ہاؤس آ جانا تو آسا ہے ذرا تکلیف اٹھا کر کشمیر آئیے ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں۔ گھر بیٹھ کر باتیں بنانے سے کیا فائدہ؟ وہ کشمیر ہے پنجاب نہیں ہے۔ ہم وہاں ہندو مسلم سوال پیدا نہ ہونے دیں گے۔‘‘
مہاراجہ صاحب ایک ہی سانس میں یہ سب باتیں کہہ گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے انہوں نے زبانی یاد کر رکھی تھیں۔ خان بہادر خواجہ عبداللہ بخش تو پولیٹیکل مذاق کے آدمی تھے۔ انہوں نے فوراً کہا کہ سرکار کے عہد میں آج تک ہم نے ریاست میں ہندو مسلم فساد کا ذکر نہیں سنا۔ یہ الفاظ سرکار کے منہ ہی سے پہلی مرتبہ سنے ہیں۔ا گر خدانخواستہ کبھی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو ہم اس فساد کو ٹالنے اور امن قائم کرنے میں اپنی جانیں تک لڑا دیں گے اور کشمیر آنے کی جو دعوت دی گئی ہے اس کے لئے اہل وفد دل و جان سے شکر گذار ہیں اور بندہ تو بن بلائے ہی ہر سال حاضر ہو جاتا ہے صرف ان لوگوں کے اطمینان کی ضرورت ہے۔
مہاراجہ صاحب نے فرمایا کہ سرکار کی زبان پر اعتبار نہیں؟ بس ہم نے کہہ دیا ہے یہی ہماری زبان اور یہی ہماری تحریر ہے۔
وفد کے لوگ حیران تھے کہ کس قسم کے مطالبات اور معروضات لے کر آئے تھے اور کس قسم کا جواب لے کے جا رہے ہیں۔
آخر ایک مرتبہ اقبال کے دوست انہیں بھی پرتاپ سنگھ کے پاس لے ہی گئے۔ یہ بھی لاہور ہی کا واقعہ ہے۔ مہاراجہ کشمیر ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا مہاراجہ سے تعارف کرایا گیا۔ بعض دوستوں نے اس ملاقات سے پہلے ہی مہاراجہ صاحب سے ڈاکٹر صاحب کی علمی شہرت اور ان کی شاعرانہ عظمت کا کچھ ذکر کر رکھا تھا۔ مہاراجہ صاحب بے تکلف کہنے لگے ’’ ڈاک دار صاحب سنا ہے آپ بیت بناتے ہیں؟‘‘
ڈاکٹر صاحب نے بھی شوخی سے جواب دیا’’ سرکار بیت نہ کبھی میں نے بنائی ہے اور نہ کبھی میرے باپ دادا نے۔ اس کے علاوہ میں ڈاکدار بھی نہیں۔ نہ میں نے کبھی ڈاک کا کام کیا ہے نہ میرے بزرگوں نے۔‘‘
مہاراجہ صاحب اقبال کے ساتھیوں کا منہ دیکھنے لگے۔ انہوں نے کہا’’ حضور یہ شاعر ہیں اور شعر کہتے ہیں۔ شعر کو بیت بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے بیت کو وہ بیت (بید ) سمجھا جس سے کرسیاں بنائی جاتی ہیں۔‘‘
مہاراجہ صاحب بولے’’ ٹھیک کہا آپ نے انہوں نے وہی بیت سمجھا ہو گا ۔ کوئی شعر سنائیے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب شعر پڑھنے لگے تو مہاراجہ نے فرمایا’’ نہیں صاحب یوں نہیں گا کر پڑھئے۔ اسی لے میں جس کی آپ کے دوست تعریف کرتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے منشی محمد دین فوق کی طرف دیکھا اور دبی زبان میں کہا جی تو یہی چاہتا ہے کہ میرے دوستوں کے پاؤں میں گھنگرو باندھے جائیں تو میں گاؤں۔ لیکن مہاراجہ کے احترام نے شوخی کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد پانچ سات شعر ترنم ہی سے پڑھے۔ آپ کے بعد مہاراجہ نے خود بھی فارسی کے چند شعر سنائے پھر کہا’’ ڈاکٹری میں آپ نے کون سا امتحان پاس کیا ہے؟‘‘
ڈاکٹر صاحب نے کہا’’ میں تو فلسفہ کا ڈاکٹر ہوں۔ فزیشن و سرجن ڈاکٹر نہیں ہوں‘‘
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے ساتھیوں میں سے ایک نے کہا کہ سرکار یہ بھی آپ کی رعایا ہیں۔ مہاراجہ نے پوچھا’’ وہ کیسے؟ یہ لاہور کے رہنے والے ہماری رعایا کس طرح ہو گئے؟‘‘ ساتھی نے کہا’’ ان کے آباؤ اجداد کشمیر کے رہنے والے تھے۔ ان کی ذات سپرو ہے۔ پنجاب میں ان کا وطن سیالکوٹ ہے۔‘‘
مہاراجہ نے کہا’’ بہت اچھا۔ سرکار آپ کو کشمیر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ ضرور آئیں۔‘‘
یہ واقعہ ڈاکٹر صاحب نے ایک مرتبہ خود سنایا تھا مگر وہ مہاراجہ کی دعوت پر کشمیر نہ آ سکے۔
کشمیری کانفرنس کے بارے میں جب اقبال بالآخر یہ محسوس کرنے لگے کہ مسلمان عالمگیر اخوت کے نصب العین کو نظر انداز کر کے برادریوں کے فریب میں مبتلا ہو گئے ہیں تو آپ نے اس کانفرنس کے کاموں میں دلچسپی لینی چھوڑ دی۔ چنانچہ کانفرنس کا جو بارہواں سالانہ اجلاس اپریل 1918ء میں سیالکوٹ میں منعقد ہوا آپ نے اس میں شرکت نہیں کی۔
اس وقتی مایوسی اور دل برداشتگی کے باوجود اقبال کا ذہن شب و روز آزادی کشمیر کے خواب دیکھنے میں محو رہتا۔ قریشی کے بقول وہ کشمیر کے روشن اور درخشندہ مستقبل سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ انہوں نے جب کبھی کہا یہی کہا کہ ایسا زرخیز ملک، ایسے روشن دماغ اور ذہین وذکی لوگ اور ایسی صناع و ہوشیار قوم ہمیشہ کے لئے کبھی غلام نہیں رہ سکتی۔ ان کی امید کا دامن یہاں تک بڑھا ہوا تھا کہ کہا کرتے تھے کہ اگر کشمیر کے لوگ بیدار ہو گئے ان کو زمانہ کا ساتھ دینے کی توفیق ہوئی اور آزادی کی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا تو یہ سارے ہندوستان کو بیدار کریں گے اور اس کے راہ نما ثابت ہوں گے۔ چنانچہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ ہندوستانی ریاستوں کی چھ کروڑ آبادی میں سب سے پہلے کشمیر کے لوگوں ہی نے جبر و استبداد کے خلاف آواز اٹھائی اور ان کی دیکھا دیکھی باقی ریاستوں کی رعایا نے بھی قدیم نظام حکومت بدلوانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے۔ (14)
1925ء میں کشمیری مسلمانوں نے اپنی بے کسی کی داستان اور بے بسی کا حال زار جس تاریخی میمورنڈم کی شکل میں وائسرائے ہند کو پیش کیا، پیر محمد افضل مخدومی کے مطابق وہ اقبال ہی کے مشورہ پر تیار کیا گیا تھا اور اس قسم کے مشورے کشمیری اکابرین کو فراہم کرنے کے لئے اقبال کی ایما پر محسن شاہ، محمد دین فوق اور محی الدین امرتسری وقتاً فوقتاً سری نگر آتے رہتے تھے۔
تحریک حریت کشمیر کے ساتھ اقبال کی فکری اور جذباتی وابستگی کے والہانہ پن کی تصویر کشی مخدومی نے اس طرح کی ہے۔ ’’ کہتے ہیں کہ طالب علمی کے شوخ و شنگ زمانہ میں جب علامہ اقبال سیالکوٹ میں اپنے آبائی وطن کے ’’ ہتو‘‘ سے دو چار ہوتے تھے تو ان سے حال و احوال کے ساتھ جنت نظیر کے ندی نالوں۔ آبشاروں اور کوہساروں کا ذکر چھیڑ کر مغموم رہتے تھے۔‘‘ (15)
ہمارے ایک خاندانی بزرگ حضرت حفیظ اللہ مخدومی فرماتے تھے کہ جب وہ موسم سرما میں سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور لدھیانہ اپنے آبائی مریدوں کے پاس جاتے تو وہ تمام کشمیری خاندان جن میں جسٹس دین محمد، شیخ عطا محمد، علی بخش ہیڈ ماسٹر، پہلوانان لاہور اور امرتسر، حضرت ہردی بابا ریشی رحمتہ اللہ علیہ (ریش مالوبٹہ مالو صاحب) کے ایام عرس میں اسی طرح گوشت نہیں کھاتے جس طرح مقامی کشمیری معتقدین احترام کے طور پر کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان میں حضرت علامہ کے والد ماجد بھی شامل تھے اور یہ روایت اس خاندان میں عرصہ دراز تک قائم رہی۔
اپنے قیام کشمیر کے دوران ایک طرف اقبال اگرچہ کشمیر کی جنت ارضی کے مرغزاروں، آبشاروں اور گل پوش سبزہ زاروں کا مشاہدہ بھی کرتے رہے لیکن دوسری جانب یہاں کے رئیسوں، سجادہ نشینوں اور مولویوں کو جو ان دنوں کشمیر کے افلاس زدہ باشندوں کی طرف سے نمائندگی کے نام نہاد مدعی تھے۔ حریت، عزت اور غیرت کے فلسفیانہ پیغام سے روشناس کراتے رہے۔ چنانچہ جب 30مارچ 1927ء کو لارڈ ارون وائسرائے ہند کشمیر کے دورے پر آئے تو کشمیر کے چند باغیرت جاگیرداروں اور رئیسوں نے پیرزادوں کی مدد سے ایک خفیہ میورنڈم ان کی خدمت میں پیش کیا جس میں مظلومیت اور غلامی کی وہ ساری داستان درج تھی جو مطلق العنان حکمران نے کشمیریوں پر روا رکھی تھی۔ بلکہ خانقاہ معلی سری نگر کے سامنے کالی جھنڈیوں کا مظاہرہ بھی ہوا تھا۔ یہ اس فہم و ادراک کے پس منظر میں بیان کیا جاتا ہے جو حضرت علامہ اپنے دورہ کشمیر کے دوران اہل کشامرہ کے ذہن میں ڈال چکے تھے۔ اس پاداش میں کئی صادق القول معززین کشمیر کو بے شمار مصائب اور آلام کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اس کی پاداش میں جلا وطنی، ضبطی جاگیرات، محرومی دربار وغیرہ اک خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا گیا۔
حضرت علامہ کی مساعی صرف وادی گل پوش تک ہی محدود نہ تھی۔ بلکہ اپنے ہم وطنوں کی مظلومیت اور بے بسی کی داستان وہ وائسریگل لاج تک بھی پہنچاتے تھے خود مہاراجہ کو متوجہ کرنے کے لئے حالات و واقعات کا دلخراش جائزہ پیش کرتے تھے۔ ’’ تاریخ مفتی محمد شاہ سعادت‘‘ میں کئی ایسے محضر ناموں کا واضح طور پر ذکر درج ہے۔
حکیم مشرق اس مسلم کانفرنس کے روح رواں تھے۔ جو پنجاب خاص کر لاہور اور امرتسر میں مقیم کشمیری حضرات نے ذہین کشمیری طلباء کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں وظائف کا اہتمام کرنے کی غرض سے قائم کی تھی۔ا س ادارہ کے طفیل متعدد کشمیری طلبا 1920ء سے 1935ء تک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ان میں اب بھی بڑے بڑے افسران اور لیڈر شامل ہیں۔ اسی ادارہ کے جنرل سیکرٹری جناب سید محسن شاہ مرحوم تھے۔ اس کے علاوہ موسم گرما میں سرکردہ کشمیری حضرات علامہ کی طرف سے سفیر بن کر سری نگر آتے تھے اور اجتماعی و انفرادی رابطے قائم کر کے یہاں احساس زیست پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
ستمبر1926ء میں جب ایسا ہی ایک وفد کشمیر آیا تو اس کے ساتھ سر محمد شفیع نے بھی رفاقت کی تھی۔ جناب شیخ محمد صادق، سید محسن شاہ، محمد دین فوق، خواجہ غلام محی الدین ایڈیٹر کشمیری میگزین تو ہر سال وارد ہوتے تھے۔ اور حضرت علامہ اقبال کا پیغام موثر ذرائع سے لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ 22 جولائی 1927ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا انور شاہ صاحب عرصہ دراز کے بعد جب وطن عزیز تشریف لائے اور مواعظ احسنہ کا سلسلہ شروع کیا اس کے لئے بھی حضرت علامہ نے ہی ان سے استدعا کی تھی۔ الغرض وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی کشمیر میں آزادی کی جو قندیل روشن ہوئی وہ اسی ضرب کلیمی کا نتیجہ تھی۔
اقبال نے مارچ1931ء میں الہ آباد کے ایک ملی اجتماع میں اپنے خطبہ کے دوران فکر فردا کے اس شعر کی نشان دہی کی تھی جو صرف چند ماہ بعد 13جولائی 1931ء کو کشمیری کے مجاہدان آزادی کے گرم اور پاک خون سے دہک اٹھا تھا۔ اور جو قلیل مدت میں آفتاب عالم تاب بن کر تحریک آزادی کشمیر کے عظیم الشان پرچم کو انتہائی آن بان کے ساتھ لہرائے جانے کا باعث بنا۔
حضرت علامہ نے اپنے وجدان و عرفان کے پیغام میں آبائی وطن کے نشیب و فراز کو کبھی محو نہیں ہونے دیا بلکہ جہاں کہیں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ وہاں ان کا لہجہ سچی محبت اور گہری ہمدردی کے جذبہ سے رقت انگیز ہو گیا ہے۔
شاعر مشرق نے اپنی زندگی کے بیشتر حصہ میں کشمیر کے افق پر مہیب اور ہولناک شخصی راج کے منحوس سائے منڈلاتے دیکھے تھے اور یہ سب کچھ دیکھ کر ان کا انسان دوست، حساس اور وطن پرست دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ تاریخ ان کی ان گنت عظمتوں میں سے اس اولو العزمی کا خاص طور پر ذکر کرے گی کہ وہ ان باسعادت اور مجاہدانہ عزائم کی ہستیوں کے پیش رو اور میر کاروان تھے۔ جنہوں نے آزادی کشمیر کا خواب دیکھا اور اہل کشمیر کو خوش حال اور ترقی یافتہ دیکھنے کی تمنا کی۔ یہی نہیں بلکہ اپنے آفاقی لب و لہجہ سے کشمیریوں کو ان کی زبوں حالی کا احساس دلایا۔
1936ء میں کشمیر کے حریت پسندوں کی شخصی راج یعنی ڈوگرہ راج کے آمروں کے ساتھ ایک اور ٹکر ہوئی۔ روایتی مظالم کے علاوہ سرکردہ رہنما جلا وطن بھی ہوئے ان میں حضرت مولانا محمد سعید مسعودی اور مولانا احمد اللہ میر واعظ ہمدانی وغیرہ شامل تھے۔ حضرت علامہ نے لاہور میں ان کے قیام و طعام اور دیگر سہولیات کے لئے اہتمام کرا لیا روزانہ ان کشمیری حضرات سے ملاقات کے دوران کشمیر کے حالات دریافت کرتے اور انہیں اپنے مفید اور کار آمد مشوروں سے نوازتے۔
ایک بار جب میر واعظ ہمدانی ان سے ملنے گئے حضرت علامہ نے پہلے اردو اور فارسی میں تکلم شروع کیا۔ مگر میر واعظ ’’ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم‘‘ کے مصداق سمجھ سے بالاتر رہے۔ مولانا مسعودی نے عرض کی حضرت ہمارے میر واعظ اردو، فارسی اور پنجابی نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ سن کر حکیم مشرق ورطہ حیرت میں پڑ گئے اور مولانا محمد سعید مسعودی کی طرف دیکھتے رہے اور کچھ دیر خاموشی کے بعد فرمایا ’’ آہ میں اپنی کشمیری زبان سے نابلد ہوں۔‘‘ پھر مسحور کن لہجہ میں مخاطب کر کے کہا کہ آزادی وطن کے طلب گار مجاہد کے لئے یہ کس قدر سعادت ہوتی کہ وہ بجائے جلائے وطن ہونے کے اپنی سر زمین پر جام شہادت نوش کرتا۔
اس کے صرف دو دن بعد مولانا مسعودی خفیہ طور پر سرحد پار کر کے واپس وطن آئے اور تحریک میں نئی جان ڈال دی۔ یہ علامہ کی مجوزہ رہنمائی تھی کہ اس تحریک میں ظالموں اور جابروں کو شکست فاش ہوئی۔
1937ء کے ایام بہار کی بات ہے کہ راقم الحروف کے ساتھ کچھ کشمیری دوست طباعت کا اہتمام کرنے کے لئے لاہور گئے۔ چند سرکردہ تمدنی شخصیتوں سے مل کر یہ تمنا تھی کہ کسی طرح حضرت علامہ سے ملاقات ہو جائے۔ ان دنوں بہ سبب علالت کے ان کے یہاں شرف باریابی نا ممکنات میں سے تھا۔ ہمارے ایک رفیق ایک فاضل اجل حکیم صاحب کے شناسا تھے جو دن میں دو ایک بار جاوید منزل جاتے تھے۔ اپنی خواہش کا اظہار ان کے سامنے کیا۔ ازراہ کرم علامہ کے یہاں انہوں نے یہ تذکرہ کیا کہ کچھ کشمیری حضرات ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ حکیم صاحب کا کہنا ہے کہ جب حضرت علامہ نے کشمیری کا لفظ سنا وفور جذبات سے زردی مائل چہرے پر گلابی رنگ کی بشاشت پیدا ہوئی۔ جب ہم سب کو شرف باریابی نصیب ہوا اس وقت علامہ پلنگ پر دراز تھے اور ایک بڑے تکیہ کے سہارے حکیم حسن صاحب اور یوسف سلیم صاحب سے مصروف گفتگو تھے۔ آنکھیں شاید بند تھیں۔ سیاہ چشمہ چڑھا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ چھاتی کو درد نے گھیرا ہے۔ مشفقانہ انداز میں فرمایا کہیے کشمیر کا کیا حال ہے۔ کچھ سننے کے بعد کہا۔ آپ کیسے لاہور آئے۔ جواب سن کر فرمایا۔ شیخ عبداللہ کیسے ہیں؟ تحریک حریت کی کیا نوعیت ہے۔ کیا تعلیم عام ہوئی ہے؟
ہم نے حضرت علامہ سے اختصار کے ساتھ تمام حالات عرض کیے۔ پھر انہوں نے نصیحت فرمائی کہ آپ لوگ تو اب بیدار ہو چکے ہیں۔ اب باہمی یکجہتی، اتحاد اور نئی نسل کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔
وقت آئے گا جب انشاء اللہ کشمیر استبدادی چنگل سے آزاد ہو گا۔ میری تمنا ہے ایک بار پھر دل کھول کر کشمیر کو دیکھ لوں۔ (16)
تیرہ جولائی کے خون آشام واقعہ کے بعد25جولائی 1931ء کو شملہ میں نواب سر ذوالفقار علی خان کی قیام گاہ Fair View پر ہند کے چند سر بر آوردہ مسلمانوں کا ایک اجلاس ہوا (17) جس میں کشمیر کی سنگین اور نازک صورت حال کا جائزہ لینے کی غرض سے غور و حوض کیا گیا۔ ایک طویل مباحثہ کے بعد متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ ایک کل ہند کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کمیٹی کے صدر مرزا بشیر الدین محمود اور مولوی عبدالرحیم درد اس کے سیکرٹری ہوئے۔ ممبران میں اقبال، نواب ذوالفقار علی خان، خواجہ حسن نظامی، نواب ابراہیم علی خان آف کھنج پورہ، خان بہادر شیخ رحیم بخش، سید محسن شاہ ایڈووکیٹ، مولانا محمد اسماعیل غزنوی، مولوی نور الحق ایڈیٹر’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ حبیب شاہ ایڈیٹر’’ سیاست‘‘ مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد یعقوب، ڈاکٹر شفاعت احمد خان، مولانا شفیع داؤدی، ایم حسن شہید سہروردی، مولانا ظفر عالم، وجیہہ الدین اور میاں جعفر شاہ شامل کئے گئے۔ (18)
’’ انقلاب‘‘نے اس اجتماع کے بارے میں مفصل طور پر اظہار رائے کر کے مزید تفصیلات اس طرح بیان کیں۔’’ پچھلے دنوں شملہ میں بعض بزرگان ملت اس غرض سے جمع ہوئے تھے کہ مظلمون مسلمانان کشمیر کی حمایت کے لئے ایک زبردست آل انڈیا کمیٹی قائم کریں جو ڈوگرہ راج کے ظلم و ستم اور مسلمانوں کی مظلومی کو دور کرنے کی غرض سے کسی مناسب پروگرام پر عمل شروع کر دے۔‘‘
25جولائی کو شملہ میں بعض اکابر ملت کا اجتماع ہوا۔۔۔۔ اور ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کی گئی۔ امید ہے کہ عنقریب ہندوستان بھر کے مسلمان قائدین اس کمیٹی میں شریک ہو جائیں گے اور یہ کمیٹی اس قدر وقیع ہو جائے گی کہ ریاست کشمیر اور حکومت انگریزی کے ارباب حل و عقداس سے آسانی کے ساتھ تغافل نہ کر سکیں گے۔
مولانا عبدالحامد بدایونی نے پچھلے دنوں فرمایا تھا کہ کشمیر کا معاملہ چونکہ تمام مسلمانوں کا ہے اس لئے ہم اس میں احمدیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔ یہ اعلان ہر حلقہ میں نہایت پسند کیا گیا۔ خواجہ حسن نظامی نے بھی اسی قسم کے خیالات ظاہر کئے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے اکابر علماء و مشائخ کو بھی اب مسلمانوں کی ضرورت اتحاد کا احساس ہو گیا ہے۔ یہ امر ملت اسلامیہ کے لئے نہایت نیک فال ہے۔
آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے اپنا حساب باقاعدہ مسلم بینک آف انڈیا لاہور میں کھول دیا ہے۔ ارباب خیر سے توقع ہے کہ وہ جلد سے جلد انتہائی اولو العزمی اور فیاضی سے فراہمی سرمایہ میں حصہ لیں گے کیونکہ مظلومین کشمیر کے لئے سب سے بڑی ضرورت روپے کی ہے۔ جن درد مند حضرات کو مسلمانان کشمیر کی امداد کر کے دنیا و آخرت میں سرخ روئی حاصل کرنا مقصود ہو انہیں چاہئے کہ حسب استطاعت چندہ مسلم بینک کو بھیجیں۔۔۔۔۔ اگر مسلمانوں نے جلد سے جلد اس کار خیر کی طرف توجہ کی تو مظلومین کشمیر انشاء اللہ کبھی ایسے وحشیانہ مظالم کے شکار نہ بنائے جا سکیں گے۔ (19)
3اگست1931ء کو کمیٹی کے سیکرٹری عبدالرحیم درد نے مہاراجہ ہری سنگھ کو ایک مراسلہ ارسال کیا جس میں یہ درخواست کی گئی کہ کشمیر کے حالات کا بہ نفس نفیس جائزہ لینے کی غرض سے کمیٹی کے ایک وفد کو کشمیر جانے کی اجازت دے دی جائے جس میں نواب ابراہیم علی خان، خواجہ حسن نظامی، خواجہ رحیم بخش اور مولوی اسماعیل غزنوی شامل ہوں گے۔ لیکن مہاراجہ نے یہ دلیل دے کر اس وفد کو وارد کشمیر ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر لیا کہ اب صورت حال معمول پر آ گئی ہے اور وفد کی موجودگی سے مقامی طور پر جذبات میں نیا ہیجان اور غلط فہمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ اطلاع سیکرٹری کمیٹی کو مہاراجہ نے ایک برقیہ کے ذریعہ دیدی۔ (20(
دو روز بعد یعنی 5اگست کو احمدی فرقہ کے سربراہ کی طرف سے مہاراجہ کو ایک اور برقیہ بھیجا گیا جس میں بیان کیا گیا کہ کشمیر میں ایجی ٹیشن شدید اور گہری ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مسلمانوں میں بھی کشمیر کے بارے میں ایجی ٹیشن ہے لہٰذا آپ کی طرف سے وفد کو خوش آمدید کہنے سے تناؤ کم ہو سکتا ہے جب کہ معزز شخصیتوں کے وفد پر پابندی عائد کرنے سے مسلمانوں کے دلوں میں غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
اس کے چند روز بعد کشمیر سرکار نے ایسے احکامات جاری کئے کہ کشمیر کمیٹی اور دیگر ایسی انجمنوں کے ممبران اگر وارد کشمیر ہونے کا اقدام کریں تو انہیں صوبہ کشمیر میں کوہالہ اور رام کوٹ میں اور جموں میں سوچیت گڈھ اور جموں شہر میں حراست میں لیا جائے گا۔ اس طرح سے جن اشخاص پر کشمیر جانے کی پابندی عائد کی گئی ان میں یہ شخصیات شامل تھیں۔ اے خان صدر سنٹرل لیبر فیڈریشن، ایس ڈی حسن جنرل سیکرٹری، ایم رفیق ایڈووکیٹ، غلام مصطفی ایڈووکیٹ، مولانا احمد سعید سیکرٹری جمعیتہ علماء ہند، ملک برکت علی ایڈووکیٹ، محمد عبدالعزیز صدر میونسپل کمیٹی لاہور، ایم امام الدین سیکرٹری انجمن امداد طبی، بی آر دیوان، نواب سر ذوالفقار علی، نواب ابراہیم، خواجہ حسن نظامی، شیخ رحیم بخش، مولوی اسماعیل غزنوی، خان بہادر دین محمد، خان بہادر حاجی رحیم بخش، سید محسن شاہ، سید حبیب اور کل ہند کشمیر کمیٹی کے دیگر سبھی ممبران۔ (21(
اس سلسلہ میں ایک کشمیری پنڈت (ہندو) گاشہ لال کول نے اقبال کے حوالے سے ایک ایسی کذب بیانی سے کام لیا جس کی بنا پر اقبال پر بغاوت کرنے کے لئے اہل کشمیر کو اکسانے کا الزام لگ سکتا تھا۔ گاشہ لال نے تاریخ کشمیر پر چند کتابیں بھی تحریر کی ہیں اور کشمیر کی تحریک آزادی کی ابتدا کے زمانہ میں وہ ظاہری طور پر مسلمانوں کا خیر خواہ بننے کا مظاہرہ کرتا تھا لیکن اپنی سرشت کے ناطے مہاراجہ کا وفادار تھا۔
چنانچہ ’’ انقلاب‘‘ کے مدیر عبدالمجید سالک کو بعد میں گاشہ لال کی فتنہ انگیزی اور دروغ گوئی کا اس طرح سے پردہ چاک کرنا پڑا’’ ایک شخص گاشہ لال نے کشمیر کی نام نہاد تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے من جملہ دوسری غلط بیانیوں اور دروغ بافیوں کے یہ بھی کہا ہے کہ آل انڈیا کشمیر کانفرنس کے لاہور اجلاس میں، میں بھی گیا تھا۔ وہاں جناب سالک مدیر’’ انقلاب‘‘ سے ملاقات ہوئی اور اس کے بعد ہم ڈاکٹر اقبال کے ہاں گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ریاست میں اس قدر بے چینی اور شورش پیدا کرنی چاہئے کہ بغاوت ہو جائے۔‘‘
حقیقت حال یہ ہے کہ کانفرنس کے دنوں جموں کے بعض کارکنوں کے ساتھ ایک نوجوان کشمیری پنڈت دفتر ’’ انقلاب‘‘ میں آیا۔ نام مجھے ٹھیک یاد نہیں جس کے متعلق کارکنوں کا بیان یہ تھا کہ وہ ریاست کشمیر کی رعایا کا حامی اور ڈوگرہ راج کے جبر و تشدد کا سخت مخالف ہے۔ چونکہ جموں کے احباب حضرت علامہ کی زیارت کے مشتاق تھے اور اس ہندو نوجوان نے بھی اشتیاق ظاہر کیا۔ اس لئے میں ان سب کو ساتھ لے کر حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مسائل کشمیر کے متعلق گفتگو ہوتی رہی لیکن یہ کہنا پرلے درجے کی بد دیانتی اور شرارت ہے کہ حضرت علامہ نے شورش اور بغاوت کی ترغیب دی۔ آپ نے یہ فرمایا کہ کشمیر میں ڈوگروں کو تو کسی تحریک کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ حکومت ان کی ہے۔ باقی رہے کشمیری پنڈت اور مسلمان، ان دونوں کو باہمی اتحاد کر کے اپنے حقوق کے لئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہ معاملہ راعی و رعایا کے درمیان رہے اور لوگوں کو اس بات کا موقع نہ ملے کہ اس کو ہندو مسلم مسئلہ بنا دیں۔ اس کے سوا جو کچھ بیان کیا گیا وہ قطعاً جھوٹ ہے۔ (22(
گاشہ لال کو ل بی اے بقول ’’ انقلاب‘‘ بعض وزرائے کشمیر کا زر خرید بن کر ان کے آلہ کار کا کام انجام دے رہا تھا (23) پونا کے اخبار’’ مراٹھا‘‘ میں بھی اس نے اسی قسم کا ایک مضمون لکھا تاکہ اقبال کو تحریک حریت کشمیر کے ضمن میں غلط رنگ میں پیش کیا جائے ا ور دوسری طرف ہندوستان کے ہندو اکثریتی والے علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو شہ دی جائے۔ اس مضمون میں گاشہ لال نے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے دئیے گئے اپنے بیان کے برعکس یہ الزام تراشی کی ’’ دوران ملاقات علامہ اقبال نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ریاست کشمیر کے مسلمان قانون کی خلاف ورزی کریں اور بم بنائیں تو مسٹر اے (مہاراجہ صاحب کشمیر) کو کمزور کر سکتے ہیں۔‘‘ (24) عبدالمجید سالک نے گاشہ لال کی اس ہرزہ سرائی کو ’’ انتہائی ناپاکی طبع اور تاریکی ضمیر کا ماحاصل‘‘ قرار دیا ہے۔
9اگست1931ء اتوار کو لاہور کے مسلمانوں کی تمام جماعتوں کا ایک مشترکہ اجلاس برکت علی محمڈن ہال میں منعقد ہوا جس کی صدارت اقبال نے کی۔ اس نشست میں کشمیری مصیبت زدگان کی امداد کا مسئلہ زیر غور لایا گیا۔ بعد میں یہ فیصلہ ہوا کہ اہل کشمیر کی مدد کے لئے سارے پنجاب میں14اور15اگست کو عام جلسے کئے جائیں اور14اگست کو ایک جلوس بھی نکالا جائے۔
14اگست کے مظاہرے کی غرض سے کشمیر کمیٹی کے مقامی سیکرٹری کی طرف سے یہ اعلان نامہ اخباروں میں شائع کرایا گیا:
مسلمانو! کشمیر کے بتیس لاکھ مظلوم اور غلام بھائیوں کو آزاد کرانا تمہارا فرض ہے۔ اگر تم نے 14تاریخ کو کشمیر ڈے (Kashmir Day) پر اپنی عزت و حمیت کا ثبوت نہ دیا تو دشمن خوش ہو گا اور اسے یقین ہو جائے گا کہ یہ قوم اب مر چکی ہے۔
لاہور کی مقامی کشمیر کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق14اگست کو بروز جمعہ بوقت چھ بجے شام دہلی دروازہ ایک عظیم الشان جلوس مظلوم کشمیری بھائیوں کی حمایت میں نکالا جائے گا جس میں اکابر و عمائد قوم شمولیت فرمائیں گے اور اختتام جلوس پر بیرون موچی دروازہ ایک عظیم الشان جلسہ زیر صدارت جناب علامہ سر محمد اقبال صاحب منعقد ہو گا۔ مفصل پروگرام بعد میں شائع کیا جائے گا۔ تمام مساجد کے خطیب صاحبان سے درخواست ہے کہ وہ جمعہ کے خطبہ میں اعلان فرما دیں کہ ہر مسلمان بوڑھا اور بچہ، امیر اور غریب جلوس اور جلسہ میں جوق در جوق شامل ہو کر اپنی غیرت و حمیت اسلامی کا ثبوت دے۔ (25(
’’ انقلاب‘‘نے اس اجتماع اور جلوس کی کامیابی کی غرض سے مسلم اکابرین پنجاب کی طرف سے جاری کردہ اپیل ان سرخیوں کے ساتھ نمایاں طور پر شائع کر لی۔
کشمیر کے بتیس لاکھ مسلمانوں کی بربادی، ڈوگرہ راج کی ہولناک سفاکی علامہ سر محمد اقبال کی صدارت میں مسلمانان لاہور کا عظیم الشانہ جلسہ
اگرچہ کئی صدیوں سے کشمیر کے مظلوم اور مفلوک الحال مسلمان ڈوگروں کی سرمایہ دارانہ حرص و آز کے شکار ہو رہے ہیں لیکن دو ماہ سے جو ہولناک مظالم ان پر برپا کئے جا رہے ہیں ان کو سن کر کوئی حساس مسلمان بلکہ شریف انسان ایسا نہیں کہ اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے نہ ہو جاتے ہوں۔
آج کشمیری مسلمانوں کا مذہب محفوظ نہیں ہے۔ قرآن مجید اور مساجد کی علانیہ بے حرمتی کی جاتی ہے۔ ڈوگرہ سپاہیوں کے ہاتھوں مسلمان عورتوں کی عزت پائمال ہو رہی ہے۔ بیسیوں مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا گیا ہے۔ زخمیوں کے ساتھ نہایت بے رحمانہ اور سفاکانہ سلوک برتا جا رہا ہے۔ معززین کو جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں پھینک جا رہا ہے۔ تمام مسلم آبادی پر خوف و ہراس اور دہشت طاری کر دی گئی ہے۔ اور ان مظلوم انسانوں کی آواز دبانے اور باہر کی دنیا کو اس سے بے خبر رکھنے کے لئے آزاد تحقیقاتی وفود کو حدود کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ان مظالم کو دیکھتے ہوئے لاہور کی تمام مسلم جماعتوں کا ایک نمائندہ اجتماع علامہ سر محمد اقبال کی زیر صدارت 9اگست کو برکت علی اسلامیہ ہال میں منعقد ہوا اور فیصلہ ہوا کہ ڈوگرہ راج کے ان سفاکانہ اور وحشیانہ مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور مظلومین کشمیر کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لئے 15-14اگست کو تمام پنجاب میں جماعت احرار اسلام پنجاب کے زیر اہتمام جلسے کئے جائیں۔
14اگست کو اسلامی جماعتیں متفقہ طور پر ہر جگہ جلوس نکالیں اور جلسوں میں مظالم کے خلاف اظہار نفرت اور مظلومین کے ساتھ اظہار ہمدردی کی قرار دادیں منظور کی جائیں۔ اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ بتیس لاکھ مظلوم بھائیوں کی امداد کے لئے پوری قوت کے ساتھ آواز بلند کریں۔ سرمایہ کی فراہمی اور رضا کاروں کی بھرتی کے لئے پوری تیاری کریں۔ تاکہ ڈوگرہ راج کی ہولناک سفاکیوں کے خلاف جس وقت عملی اقدام کا فیصلہ ہو تو تمام پنجاب کے مسلمان جنگ کے بگل کی آوا ز سن کر فوراً میدان میں اتر آئیں۔
المشتہران:
چودھری افضل حق سابق ممبر لیجسلیٹو کونسل، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، میاں عبدالعزیز صدر بلدیہ لاہور، مولانا احمد علی ناظم انجمن خدام الدین لاہور، مولانا غلام مرشد خطیب مسجد اونچی بھاٹی دروازہ لاہور، میاں نظام الدین رئیس اعظم لاہور، خان بہادر شیخ دین محمد ایڈووکیٹ، حاجی شمس الدین، مولوی محمد یعقوب ایڈیٹر’’ لایٹ‘‘ ، سیدمحسن علی شاہ سیکرٹری آل انڈیا کشمیری کانفرنس، خواجہ غلام محمد، ملک لال دین قیصر، خواجہ اللہ بخش گنائی، سید افضال علی شاہ حسنی، میاں محمد نذیر ایڈووکیٹ، مولانا غلام رسول مہر مدیر’’ انقلاب‘‘ ، ڈاکٹر عبدالقوی ایم بی بی ایس، میاں فضل الکریم وکیل، شیخ حسن الدین ایڈووکیٹ، مولانا مظہر علی اظہر، مولانا سید محمد داؤد غزنوی (26)
طے شدہ پروگرام کے مطابق اہل کشمیر کے ساتھ اپنی یکجہتی کے مظاہرہ کی خاطر14اگست کو لاہور میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس میں کم و بیش ایک لاکھ لوگوں نے شمولیت کی۔ جلوس میں شامل لوگوں نے ’’ اللہ اکبر‘‘ ۔’’ شہیدان کشمیر زندہ باد‘‘ اور’’ ڈوگرہ رجا مردہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ یہ جلوس دہلی دروازہ سے لاہور شہر میں داخل ہو کر سنہری مسجد، کشمیری بازار، ڈبی بازار، بزاز ہٹہ، رنگ محل اور حویلی کابلی مل سے ہوتا ہوا رات کو نو بجے باغ بیرون موچی دروازہ پہنچا جہاں اقبال کی صدارت میں ایک یادگار جلسہ ہوا۔ اقبال نے اس تاریخی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’تحریک آزادی کشمیر کو فرقہ وارانہ رنگ دینا غلط ہے۔ یہ بین الاقوامی تحریک کا حصہ ہے۔ نغمہ انقلاب چاز دانگ عالم میں گونج رہا ہے اور انقلابات جہاں کا اثر اہل کشمیر پر ہونا لازمی ہے۔ اب کوئی مہاراجہ یا نواب عوام کی مرضی کے خلاف عوام پر حکومت نہیں کر سکتا۔‘‘ (27)
کشمیر کمیٹی کے دوش بدوش مجلس احرار پنجاب نے بھی کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال میں دلچسپی لینا شروع کیا۔ اس مجلس نے مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری کی سربراہی میں جتھے کشمیر بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن انہیں بعد میں کشمیر سرکار نے راستے میں ہی روک لیا۔
اس جوش و جذبہ نے ایک منفی رخ یہ اختیار کر لیا کہ کشمیر کمیٹی اور مجلس احرار کشمیریوں کی ہمدردی اور غم گساری میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے میں مشغول ہوئیں اور اس طرح سے ان کی صفوں میں اتحاد و یگانگت کے برعکس حسد اور رقابت نے لی۔ اس تعلق میں مرزا بشیر پر کشمیری مسلمانوں کو قادیانی (مرزائی) بنانے کا الزام عائد کیا گیا حتیٰ کہ شیخ محمد عبداللہ کے بارے میں بھی یہ بات زبان زد خاص و عام ہوئی کہ انہوں نے مرزائیت کو اپنا لیا ہے اور تبدیلی مذہب کے اس عمل میں انہیں کشمیر کے ایک مرزائی مولوی عبداللہ وکیل نے شیشے میں اتارا ہے۔
الزام ورد الزام کے اس مایوس کن ماحولمیں مرزا بشیر نے کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ اقبال اس کے صدر منتخب کئے گئے۔
اقبال نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلے یہ کوشش کی کہ باہمی اختلافات کو یکسر نظر انداز کر کے کشمیر کی فریاد پر توجہ دی جائے اور جس قدر ہو سکے کشمیریوں کی اخلاقی اور مادی امداد کی جائے۔ اقبال کی ان مساعی کا یہ خاطر خواہ نتیجہ نکلا کہ کمیٹی اور مجلس کے اراکین کے علاوہ بھی پنجاب کی کئی سیاسی شخصیتوں نے یک جان و یک زبان ہو کر تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کو اپنا مطمع نظر بنا لیا جس کا یہ فائدہ ہوا کہ اس تحریک نے اپنے قائدین کی بے سر و سامانی کے باوجود قلیل عرصہ میں ایک ہمہ گیر اور منظم جدوجہد کی صورت اختیار کر لی اور ڈوگروں کے شخصی راج کی سطوت شاہی کا محل اس کی گھن گرج سے لرزنے لگا۔
5جون1933ء کو اقبال نے اپنے منصب کے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں اولین فرصت میں وائسرائے ہند کو ایک برقیہ ارسال کیا جس میں کشمیر کے ابتر حالات پر اظہار تشویش کرتے ہوئے سرکار کو زور اور جبر کے اقدامات سے گریز کرنے کے لئے کہا گیا۔ برقیہ میں کہا گیا۔ ’’ حالات کشمیر سے مسلمانان ہند میں سخت اضطراب برپا ہو گیا ہے اور اس بات کا اندیشہ ہے کہ ریاست میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی یہ توقع کرتی ہے کہ ریاست کی حکومت ان حالات میں گولی باری، لاٹھی چارج اور گرفتاریوں سے محترز رہے گی۔‘‘ (28)
کشمیر میں1932ء میں مسلم کانفرنس کے قیام کے بعد سیاسی قیادت دو حصوں میں بٹ گئی تھی جہاں کشمیر میں عام مسلمانوں کی اکثریت میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ کی ہم خیال تھی وہاں شیخ محمد عبداللہ اپنی سیاسی حکمت عملی کو کانگریس جماعت کے زیر اثر ایک سیکیولر قالب میں ڈھالنے کے درپے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر کی قیادت کی سوچ اور طرز عمل میں رفتہ رفتہ خلیج بڑھتی ہی گئی۔ جموں میں شیخ عبداللہ کی حمایت نہ ہونے کے برابر رہی جب وہاں کے مقامی سیاسی رہنماؤں چودھری غلام عباس خان، اللہ رکھا ساغر اور چودھری حمید اللہ خان نے وادی میں میر واعظ کی طرف اپنا دست تعاون دراز کیا۔ 4جون1933ء کو کشمیر کمیٹی کا جو اجلاس لاہور میں ہوا اس میں اور باتوں کے علاوہ ان اختلافات پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا گیا’’ کمیٹی مسلمانان کشمیر کے باہمی فسادات پر نہایت رنج اور افسوس کا اظہار کرتی ہے اور انتہائی زور کے ساتھ اپنے ہم مذہب بھائیوں سے درخواست کرتی ہے کہ وہ باہم تعاون اور موالات سے کام لیں۔‘‘ (29(
کمیٹی نے یہ بھی فیصلہ کر لیا کہ ایک نمائندہ وفد کشمیر بھیجا جائے جو متحارب طبقات کے درمیان صلح کرائے اس وفد میں شمولیت کی خاطر اقبال، حاجی رحیم بخش، ملک برکت علی، سید حبیب، محمد دین فوق، سید محسن شاہ، حاجی شمس الدین، پروفیسر عبدالقادر، پروفیسر علیم الدین سالک اور شمس الدین حسن کے نام تجویز کئے گئے۔ (30(
کشمیر میں میر واعظ کے پرستاروں اور شیخ عبداللہ کے حامیوں کے اختلافات نے فسادات کی شکل اختیار کر لی جس سے اقبال بے حد رنجیدہ خاطر ہوئے۔ مہاراجہ نے کشمیر میں ان کی آمد پر پابندی عائد کر رکھی تھی لہٰذا وہ اس عناد و فساد کو دبانے میں کوئی عملی رول ادا نہ کر سکے البتہ شیخ عبداللہ کے نام اپنے 2اکتوبر1933ء کے مراسلہ میں انہوں نے عبداللہ کو خبردار کیا کہ ’’ جو مختلف جماعتیں سنا ہے بن گئی ہیں ان کا باہمی اختلاف آپ کے مقاصد کی تکمیل میں بہت بڑی رکاؤٹ ہو گا۔‘‘
کشمیر کی روز افزوں بگڑتی ہوئی سیاسی اور معاشی حالت کو دیکھ کر دربار کشمیر نے 1932ء میں گلانسی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں اصلاحات کا اعلان کیا۔
اقبال نے ’’ سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے نامہ نگار سے ایک ملاقات کے دوران اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا’’ باشندگان ہند دربار کشمیر کے اس اعلان کا تہہ دل سے خیر مقدم کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ گلانسی کمیشن کی تمام سفارشات پر بہت جلد مکمل طور پر عمل درآمد ہو جائے گا اور حکومت ان لوگوں کا مکمل اعتمار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جن کے لئے اصلاحات نافذ کی گئی ہیں۔ اس حصول محکم کے لئے حاکم اور محکوم کے درمیان امن اور باہمی اتحاد کی فضا پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ امن اور باہمی اتحاد کے لئے حکومت کو ان سے اس طرح سلوک کرنا چاہئے جس سے ان کو اس امر کا احساس ہو جائے کہ حکومت ان کی زندگی اور آرزوؤں کا کوئی علیحدہ جزو نہیں ہے بلکہ ان کا اپنا ایک الگ ادارہ ہے۔ جس کے ذریعہ ان کی جائز آرزوئیں عملی شکل اختیار کرتی ہیں۔‘‘
میں کرنل کالون کو ضرور یہ مشورہ دوں گا کہ لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے اور حکومت اور ان کے درمیان خوشگوار تعلقات کو بحال کرنے کے لئے کرنل موصوف کو چاہئے کہ میر پور اور بارہ مولہ کی عدالتوں میں جو فوجداری اور دوسری مقدمات زیر سماعت ہیں ان کو واپس لئے جانے کا حکم جاری کریں۔ اگر ایسا کیا گیا تو نظام کشمیر اور اس کے یورپین وزیراعظم کی شہرت اور انصاف پروری کو چار چاند لگ جائیں گے اور وزیراعظم کے خلاف جو پروپیگنڈہ شروع ہوا ہے اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔
انہوں نے آگے چل کر کہا’’ مجھے امید ہے کہ شیخ محمد عبداللہ کو بہت جلد رہا کیا جائے گا اور وہ اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو سیاسی یا دوسرے اختلافات ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اس طرح اصلاحات پر عمل درآمد کرنے کی غرض سے ان کے درمیان باہمی تعاون کا سلسلہ قائم کیا جائے گا۔‘‘ (31(
ایک مطلق العنان دور حکومت کے آہنی پنجے تلے کراہتے ہوئے غلام کشمیریوں کی تیرہ بختی کے سلسلے میں اور کیا ستم ظریفی ہو سکتی تھی کہ ایک طرف خود کشمیر میں ایک ہی مقصود کے حصول کا دعویٰ کرنے والے سیاسی رہنما باہمی تضادات اور معمولی اختلافات پر اپنی مقدس تحریک کر قربان کر رہے تھے اور دوسری جانب لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں رہنے والے ان کے غم گسار اور غم خوار بھی کشمیر کمیٹی کے نام پر کبھی یکجا ہوتے اور کبھی ایک دوسرے کی مخالفت میں مظلوم کشمیریوں کو بھول ہی جاتے۔ کشمیر اور پنجاب میں کشمیریوں کے روشن مستقبل کا خواب دیکھنے والوں کے اندازے خود ان کی اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے غلط ثابت ہو رہے تھے۔
اقبال کی انتھک محنت اور مخلصانہ کوششوں کے باوجود کشمیر کمیٹی جن اختلافات اور ذاتی نظریات کے تضاد کا شکار ہو کر رہ گئی تھی ان سے چھٹکارا پانے کی غرض سے اقبال نے خود ہی اس کمیٹی کو توڑنے کا اعلان کیا۔ ان کا یہ بیان 20جون 1933ء کو جاری ہوا جس میں وہ کہتے ہیں۔
’’ کشمیر کمیٹی میں میری صدارت محض عارضی تھی۔ کمیٹی کی تشکیل کشمیر میں غیر متوقع واقعات کے اچانک رونما ہونے پر صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے ہوئی تھی۔ اور اس وقت یہ خیال تھا کہ اس قسم کی کمیٹی کی ضرورت جلد ختم ہو جائے گی۔ اس لئے کمیٹی کا کوئی نظام مرتب نہیں کیا گیا تھا اور صدر کو آمرانہ اختیارات دئیے گئے تھے۔‘‘
یہ خیال کہ کشمیر کمیٹی کی ایک مستقل ادارہ کی حیثیت سے ضرورت نہ ہو گی ریاست میں پیدا ہونے والے واقعات نے غلط ثابت کر دیا۔ لہٰذا بہت سے ممبران نے یہ سوچا کہ کمیٹی کا ایک باقاعدہ نظام ہونا چاہئے اور عہدیداروں کا انیا انتخاب ہونا چاہئے کمیٹی کے ارکان اور اس کے طریقہ کار کے متعلق کچھ لوگوں کے اختلافات نے جس کے اسباب کا یہاں ذکر مناسب نہیں ہو گا اس خیال کی مزید تائید کی چنانچہ کمیٹی کا ایک اجلاس طلب کیا گیا جس میں کمیٹی کے صدر نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ پچھلے ہفتے کے آخری دنوں میں کمیٹی کا ایک اور جلسہ ہوا۔ اس میں ممبران کے سامنے نظام کا مسودہ پیش کیا گیا جس کی غرض و غایت یہ تھی کہ کمیٹی کی حیثیت ایک نمائندہ جماعت کی سی ہو لیکن ممبران نے اس سے اختلاف ظاہر کیا۔ البتہ بحث مباحثہ اور گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ لوگ دراصل کمیٹی کو دو ایسے حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں جن میں اتحاد صرف برائے نام ہی ہو گا چنانچہ میں نے اپنا استعفیٰ پیش کرنے سے پہلے ممبران کو اپنی رائے سے اچھی طرح آگاہ کیا تھا۔
بدقسمتی سے کمیٹی میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے مذہبی فرقے کے سوا کسی دوسرے کا اتباع کرنا سرے سے گناہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ احمدی وکلاء میں ایک صاحب (32) نے جو میر پور کے مقدمات کی پیروی کر رہے تھے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں واضح طور پر اپنے اس خیال کا اظہار کر دیا۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ وہ کسی کشمیر کمیٹی کو نہیں مانتے اور جو کچھ انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے اس ضمن میں کیا وہ ان کے امیر کے حکم کی تعمیل تھی۔
مجھے اعتراف ہے کہ میں نے ان کے اس بیان سے اندازہ لگایا کہ تمام احمدی حضرات کا بھی یہی خیال ہو گا اور اس طرح میرے نزدیک کمیٹی کمیٹی کا مستقبل مشکوک ہو گیا۔
میں کسی صاحب پر انگشت نمائی نہیں کرنا چاہتا۔ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ سے کام لے اور جو راستہ پسند ہو اسے اختیار کرے۔ حقیقت میں مجھے ایسے شخص سے ہمدردی ہے جو کہ کسی روحانی سہارے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کسی مقبرے کا مجاور یا کسی زندہ نام نہاد پیر کا مرید بن جائے۔
جہاں تک مجھے علم ہے کشمیر کمیٹی کی عام پالیسی کے متعلق ممبران میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ پالیسی کے اختلاف کی بنا پر کسی نئی پارٹی کی تشکیل پر اعتراض کرنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ لیکن جہاں تک میں نے حالات کا جائزہ لیا ہے کشمیر کمیٹی کے چند ارکان کو جو اختلافات ہیں وہ بالکل بے تکے ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر مجھے اس امر کا یقین ہے کہ کمیٹی میں اب ہم آہنگی کے ساتھ کام نہیں ہو سکتا اور ہم سب کا مفاد اسی میں ہے کہ موجودہ کشمیر کمیٹی کو ختم کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ مسلمانان کشمیر کی رہنمائی اور مدد کے لئے برطانوی ہند میں ایک کشمیر کمیٹی ضرور ہونی چاہیے اس لئے اگر برطانوی ہند کے مسلمان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو وہ مجاز ہیں کہ ایک کھلے عام اجلاس میں ایک نئی کشمیر کمیٹی کی تشکیل کریں۔موجودہ حالات کے پیش نظر مجھے صرف یہی راستہ دکھائی دیتا ہے۔ (33(
1933-34کے زمانہ تک اقبال مسلمانوں کے باہمی اختلافات، اندرونی انتشار اور اپنی علالت طبع کے باعث سیاست سے تقریباً کنارہ کش ہو چکے تھے۔ سید سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں’’میں خود مسلمانوں کے انتشار سے بے حد درد مند ہوں اور گذشتہ پانچ چار سال کے تجربہ نے مجھے سخت افسردہ خاطر کر دیا ہے۔‘‘ (34) اور مولانا عبدالماجد دریا باوی کے نام اپنے 24 ستمبر1933ء کے مکتوب میں کہتے ہیں’’ گذشتہ چار پانچ سال کے تجربہ نے مجھے بہت درد مند کر دیا ہے۔ اس لئے جلسوں میں میرے واسطے کوئی کشش باقی نہیں رہی۔‘‘ (35(
البتہ عملی سیاست سے اس سبکدوشی کے باوجود اقبال کے دل میں کشمیر کے مظلومو کا درد کروٹیں لیتا رہا۔ ان دنوں آزادی کشمیر کے جیالوں کو شخصی راج کے ظالم ارباب حل و عقد مختلف فرضی مقدمات میں ماخوذ کر کے قید خانوں میں ڈال دیا کرتے تھے۔ اقبال ان مقدمات کی پیروی کے لئے اپنے وکیل دوستوں سے برابر رابطہ قائم رکھے ہوئے تھے اس تعلق میں ملک برکت علی ایڈووکیٹ اقبال کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے تھے لیکن فروری 1934ء میں انہیں انتخابات میں کھڑا ہونا پڑا لہٰذا اقبال نے پٹنہ کے ایک معروف قانون دان سید نعیم الحق کو بعض ایسے مقدمات کی پیروی پر رضا مند کر لیا۔
شیخ عبدالحمید ایڈووکیٹ صدر کشمیر مسلم کانفرنس جموں ان تمام قانونی مساعی کے مرکز تھے اور اقبال نے نعیم الحق کو بھی ان ہی کے سپرد کر دیا۔
25دسمبر1933ء کو اپنے مراسلہ میں نعیم الحق کے نام لکھتے ہیں۔’’ کشمیر کے مسلمانوں کی امداد و اعانت آپ کا بڑا ہی کرم ہے۔ ‘‘ مقدمات کی تاریخیں فروری 1934ء میں حسب ذیل ہیں:ـ
5سے 10فروری تک مقدمہ سکھ چین پور، 4سے 17فروری تک مقدمہ علی بیگ، دونوں مقدمات کی سماعت جموں میں ہو گی۔ کیا آپ دونوں مقدمات کی پیروی کے لئے تیار ہیں۔ ملک برکت (علی) فروری میں اپنے انتخاب میں مصروف ہوں گے۔ ہم سب آپ کی مکرر اعانت کے لئے نہایت احسان مند ہوں گے۔ا گر آپ تکلیف گوارہ فرمائیں تو مجھے فوراً بذریعہ تار اپنی آمادگی سے مطلع فرمائیں تاکہ ضروری کاغذات بھیج سکوں۔ کوشش کروں گا کہ آپ کے لئے ایک مددگار مہیا کیا جائے۔ عبدالحمید صاحب نے مجھے اطلاع دی ہے کہ آپ نے ذکر کیا تھا کہ پٹنہ کے (مخیر رئیس) سید عبدالعزیز صاحب مسلمانوں کی امداد کو ہر وقت تیار ہوں گے۔ آپ میری طرف سے ان کی خدمت میں کشمیر کے بے بس مسلمانوں کی امداد کی درخواست کیجئے۔(36(
1934ء کے آغاز میں بہار ایک تباہ کن زلزلہ آیا جس سے سارے علاقہ کو بے حساب نقصان اٹھانا پڑا لیکن نعیم الحق اس آفت سماوی کے باوجود اپنے ارادہ پر قائم رہے اور انہوں نے بہرحال اقبال کے احترام اور مسلمانان کشمیر کی ہمدردی میں یہ مقدمات لڑنے کا فیصلہ برابر قائم رکھا۔ا س کی اطلاع انہوں نے اقبال کو دیدی جس کے جواب میں اقبال نے ان کو لکھا’’ نوازش نامہ کے لئے جو ابھی ابھی موصول ہوا ہے۔ سراپا سپاس ہوں مجھے پٹنہ میں دوستوں کے متعلق حد درجہ تشویش تھی اور میں تار دینے ہی والا تھا کہ آپ کا نوازش نامہ موصول ہو گیا۔ زلزلہ کی ہولناکی سے طبیعت پر غم و یاس کی فراوانی اور پریشانی اور پریشان خاطری کے باوجود مقدمہ کی پیروی کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے آپ کی ہمت و مستعدی لائق صد ہزار داد و ستائش ہے۔ مجھے میر پور کے مقدمہ کی نقل فیصلہ موصول ہو گئی ہے لیکن ابھی دوسرے کاغذات کا انتظار ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ اس مقدمہ کی پیروی کا بار بھی آپ ہی کو اٹھانا پڑے گا۔‘‘ (37(
حیدر آباد دکن کے محمد باہدر خان نواب بہادر یار جنگ نے اس صدی کی چوتھی دہائی کے اوائل میں دکن میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر ایک پر اثر تحریک چلائی۔ وہ کل ہند ریاستی مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔
نواب بہادر کو اقبال کے ساتھ خاص عقیدت تھی۔ اس قرابت داری اور تعلق کو خواجہ حسن نظامی نے اقبال اور نواب کے درمیان پہلی ملاقات میں اس تعارفی جملہ کے ساتھ اقبال کو مخاطب کر کے کہا تھا’’ اگر آپ بادشاہ ہیں تو یہ آپ کے سپہ سالار ہیں اور اگر آپ شمع ہیں تو یہ آپ کے پروانے ہیں اور اگر آپ دانا ہیں تو یہ آپ کے دیوانے ہیں۔‘‘ (38(
اقبال کشمیریوں کی ناگفتہ بہ حالت کے پیش نظر انہیں قلمے در مے سخنے غرض ہر طرح کی مدد کرنے کے لئے بے قرارر رہتے تھے۔ چنانچہ کشمیری مظلوموں پر جو لا تعداد مقدمات سرکار نے عائد کر رکھے تھے ان میں دفاعی معاملات کو آسان بنانے کی غرض سے نواب بہادر کو بھی مالی امداد کی درخواست کی اور اس التجا کے وقت انہیں ذرہ بھر بھی یہ احساس نہ رہا کہ کیا یہ درخواست قبول ہو گی بھی یا نہیں یا یہ کہ کہیں اس میں حمیت انسانی پر کوئی حرف تو نہیں آتا۔ یہ سب وہ اس لئے کرتے رہے کیونکہ ان کا مقصد بہرحال کشمیری قوم کو نکبت و افلاس اور جبر و قہر کی زنجیروں سے آزاد کرانا تھا۔ 14ستمبر1933ء کو نواب بہادر کو لکھتے ہیں ’’ مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے آپ سے درخواست کرنے کے لئے یہ عریضہ لکھتا ہوں۔ اس وقت حکومت کی طرف سے ان پر متعدد مقدمات چل رہے ہیں جن کے اخراجات کی وجہ سے فنڈ کی نہایت ضرورت ہے مجھے یقین ہے کہ آپ کی تھوڑی سی توجہ سے یہ مشکل حل ہو جائے گی۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مسلمانان کشمیر کو امداد کا مستحق تصور کرتے ہیں۔ یہ طباع اور ذہین قوم ایک مدت سے استبداد و ظلم کا شکار ہے۔ اس وقت مسلمانان ہند کا فرض ہے کہ ان کی موجودہ مشکلات میں ان کی مدد کی جائے۔ ‘‘ (39(
اس دوران اقبال کے مرزائیوں کے ساتھ تعلقات بگڑ چکے تھے۔ اقبال کو اندیشہ تھا کہ مرزائی اپنے ایک خاص مذہبی نقطہ نظر سے کشمیر کی سیاست کا استحصال کرنے کے درپے ہیں اور انہیں فی الحقیقت کشمیری مسلمانوں کے وسیع تر سیاسی اور اقتصادی مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس نقطہ نظر کو تقویت دینے کی خاطر وادی کشمیر کی مشہور سیاسی شخصیت شیخ محمد عبداللہ کو بھی اپنے جال میں پھانس لیا تھا اور عبداللہ کے مرزائی بننے کا چرچا سارے کشمیر میں ہو رہا تھا۔
اسی سلسلہ میں یہ واقعہ ہوا کہ 30جنوری1933ء کو میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ نے سری نگر میں خانقاہ نقشبندیہ میں وعظ خوانی کرتے ہوئے شیخ محمد عبداللہ کے بارے میں علی الاعلان کہا کہ وہ مرزائی ہو گئے ہیں اور ریاستی مسلمانوں کو بھی اسی راہ پر لگا رہے ہیں۔ اس کے چند ماہ بعد یعنی اکتوبر میں مرزائی رہنما مرزا بشیر الدین محمود کا ایک کھلا خط’’ برادران کشمیر کے نام‘‘ شائع ہوا جس میں انہوں نے میر واعظ یوسف شاہ کی مخالفت اور شیخ عبداللہ کی حمایت کی۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ لاہور میں منعقدہ کشمیر کمیٹی کے ایک اجلاس میں عبداللہ نے جماعت احمدیہ سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا۔ اس اجلاس کی صدارت اقبال کر رہے تھے۔
اقبال اب مرزائیت اور مرزائیوں کے داؤ پیچ کو سمجھ کر ان کی کشمیر نوازی کی ہر کارروائی کو رد کرنے لگے۔ میر پور کے مقدمہ کے حوالہ سے بھی انہوں نے پٹنہ ہی کے نعیم الحق کو زحمت دی تھی لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ اس کی پیروی مشہور مرزائی قانون دان سر ظفر اللہ خاں کریں گے تو انہوں نے 9فروری 1934ء کو نعیم الحق کو لکھا’’ جس مقدمہ کی پیروی کے لئے میں نے آپ سے درخواست کی تھی اس کی پیروی چودھری ظفر اللہ خان کریں گے۔ عبدالحمید صاحب نے مجھے اطلاع دی ہے۔ او رمیں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو ہر قسم کی زحمت سے بچانے کے لئے مجھے فی الفور آپ کو مطلع کرنا چاہئے۔ چودھری ظفر اللہ خان کیونکر اور کس کی دعوت پر وہاں جا رہے ہیں مجھے معلوم نہیں شاید کشمیر کانفرنس کے بعض لوگ ابھی تک قادیانیوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں۔ ‘‘ (40(
ایک طرف مرزائیوں کی ریشہ دوانیوں سے اقبال لاہور میں برگشتہ خاطر تھے اور دوسری جانب کشمیر میں میر واعظ مولانا یوسف شاہ اور شیخ محمد عبداللہ کے حامیوں کے درمیان روز افزوں اختلافات نے انہیں اور بھی رنجیدہ خاطر بنا رکھا تھا۔ شیخ عبداللہ کے نام ایک خط میں 2 اکتوبر 1933ء کو انہیں محسوسات کا اظہار کرتے ہوئے بزرگان کشمیر کو عقل و فراست سے کام لینے کی تلقین کرتے ہیں۔ ’’ ہم آہنگی ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمام سیاسی اور تمدنی مشکلات کا علاج ہے۔ ہندی مسلمانوں کے کام اب تک محض اس وجہ سے بگڑ رہے ہیں کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہو سکی اور اس کے ا فراد اور بالخصوص علماء اوروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنے رہے بلکہ اس وقت بھی ہیں۔ آپ کے ملک کو یہ تلخ تجربہ نہ ہو۔ ‘‘ (41(
1931ء میں باقاعدہ طور پر شروع ہونے والی تحریک حریت کشمیر کے اتار چڑھاؤ پر اقبال کی گہری نظر تھی۔ انہیں جب بھی موقع ملا تو وہ اپنے خطابات، بیانات، منظومات اور دیگر نگارشات میں آزادی کشمیر کی حمایت کرتے رہے۔
1931ء اور1932ء میں انہوں نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کی صدارتی تقریروں میں آزادی کشمیر کی تحریک کو ’’ نئے دور کا پیش خیمہ‘‘ قرار دیا اور امید کی کہ یہ ’’ ڈوگرہ شاہی کے خاتمہ کی ابتدا ہو گی۔‘‘ 1932ء کے صدارتی خطاب میں اقبال نے کہا جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے مجھے ان واقعات کے تاریخی پس منظر میں جانے کی ضرورت نہیں جو حال ہی میں رونما ہوئے ہیں ایسی قوم کا جاگ اٹھنا جس میں شعلہ خودی بجھ چکا ہو غم اور مصائب کے باوجود ان لوگوں کے لئے مسرت کی بات ہے جو ایشیائی قوموں کی اندرونی کشمکش سے واقف ہیں۔ کشمیر کی تحریک انصاف پر مبنی ہے اور مجھے کوئی شبہ نہیں کہ اس ذہین اور صناع قوم میں اپنی شخصیت کا احساس نہ محض ریاست بلکہ تمام ہندوستان کے لئے عافیت کا باعث ہو گا۔
وہ زمانہ ریاست جموں کشمیر میں ایک پر آشوب زمانہ تھا۔ جموں اور سری نگر میں سینکڑوں رہنما یان قوم اور محبان وطن دار و گیر کا شکار تھے لیکن عوام الناس اپنے موقف کے راستہ پر پورے عزم اور استقلال کے ساتھ گامزن تھے اور ڈوگروں کے جور و جبر کے باوجود ان کے قدم نہیں لڑکھڑائے۔
کشمیری مسلمانوں کی بیداری اور سارے ہندوستان میں وسیع النظر قوتوں کی طرف سے ان کی حمایت کا یہ خاطر خواہ نتیجہ نکلا کہ حکومت ہند نے کرنل کالون کو کشمیر کا وزیر اعظم بنا کر بھیجا۔ لیکن اس کے باوجود حالات پوری طرح سدھر نہ سکے۔ کچھ ہی روز بعد شیخ محمد عبداللہ، میر واعظ مولانا یوسف شاہ اور کئی سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔
اقبال نے یہ غمناک صورت حال دیکھ کر 7جون 1933ء کو ایک بیان دیا جس میں انہوں نے کہا’’ کشمیر گورنمنٹ کے تازہ اعلانیہ میں کہا گیا ہے کہ سری نگر میں اب حالات پر سکون ہیں لیکن جو اطلاع مجھے معتبر ذرائع سے ملی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات اتنے اچھے نہیں ہیں جتنے کہ سرکاری اعلامیہ میں بتائے گئے ہیں۔‘‘
میرا تو خیال ہے کہ خود حکومت کشمیر کے ارکان میں ایسے لوگ ہیں جو کرنل کالون کی پالیسی کو ناکام بنانے کی کوشش میں ہیں۔
حکومت کشمیر کے ایک تازہ اعلامیہ میں دنیا کو بتایا گیا ہے کہ مسلم جماعتوں کے لیڈروں کی گرفتاری کابینہ کے متفقہ فیصلے کے مطابق عمل میں لائی گئی ہے۔ ایک معتبر خبر کے ذریعہ جو مجھے اپنے طور پر موصول ہوئی ہے۔ اس بیان میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی۔ حکومت کشمیر کی سفاکی، درندگی اور بربریت سے اسی طرح پردہ سر کایا جاتا ہے۔
میں کشمیر کی کسی جماعت کی بلا وجہ حمایت نہیں کرنا چاہتا لیکن دونوں جماعتوں کے لیڈروں کی گرفتاری، لوگوں پر دروں کی بارش اور عورتوں اور بچوں پر گولی چلانا اور لاٹھی چارج ایسے واقعات ہیں جو کشمیر کو پھر ان مصیبتوں میں ڈال دیں گے جن سے کرنل کالون نے اپنی حکمت عملی سے نجات دلائی تھی۔
مجھے امید ہے کشمیر گورنمنٹ موجودہ واقعات کا نفسیاتی پس منظر معلوم کرنے کی کوشش کرے گی اور ایسا رویہ اختیار کرے گی جس سے ریاست میں امن اور آشتی کا دور دورہ ہو جائے۔
میں مسلمانان کشمیر سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ ان تحریکوں سے خبردار رہیں جو ان کے خلاف کام کر رہی ہیں اور اپنے درمیان اتفاق و اتحاد پیدا کریں۔ کشمیر میں ابھی بیک وقت دو یا تین اسلامی سیاسی جماعتوں کے کام کرنے کا وقت نہیں ہے وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کی نمائندہ صرف ایک ہی جماعت ہو۔ (42(
13جولائی1933ء کو اقبال نے پنجاب سرکار کے چیف سیکرٹری سی سی گاربیٹ کو بھی کشمیر کے بگڑے ہوئے حالات کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک مراسلہ ارسال کیا جس میں اور باتوں کے علاوہ اس بات کی تاکید کی گئی کہ ’’ کشمیر کمیٹی امید کرتی ہے کہ مسلمانوں کی جائز شکایتوں کے فوری تدارک کی ضرورت کو گورنمنٹ براہ کرم کشمیر گورنمنٹ کے ذہن نشین کرائے۔ ‘‘ (43(
اس سے کوئی دو ہفتہ قبل کشمیر کمیٹی کے از سر نو وجود میں آنے پر اقبال نے کمیٹی کے سیکرٹری ملک برکت علی ایڈووکیٹ کی معیت میں30جون1933ء کو ایک اپیل شائع کی جو تحریک آزادی کشمیر کے حوالہ سے ایک خاص مقصدیت اور پس منظر کی حامل ہے۔ اس اپیل میں انہوں نے کہا ’’موجودہ زمانہ میں ہندوستان کے اندر تحریک خلافت کے بعد تحریک کشمیر ایک ایسی تحریک ہے جس سے خالص اسلامی جذبات کو عملی مظاہرہ کا موقع ملا اور جس نے قوم کے تن مردہ میں حیات کی لہر ایک دفعہ پھر دوڑا دی۔ اہل خطہ (کشمیر) ملت اسلامیہ ہند کا جزو لاینفک ہیں اور ان کی تقدیر کو اپنی تقدیر نہ سمجھنا تمام ملت کی تباہی و بربادی کے حوالے کر دینا ہے۔ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں فی الحقیقت ایک مضبوط و مستحکم قوم بننا ہے تو ان نقطوں کو ہر وقت ذہن میں رکھنا ہو گا۔ اول یہ کہ شمال مغربی سرحدی صوبہ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے حدود ہندوستان کے اندر جغرافیائی اعتبار سے کشمیر ہی وہ حصہ ہے جو مذہبی اور کلچرل حیثیت سے خالصتاً اسلامی ہے اور ایسا اسلامی کہ اسلام نے وہاں جبروا کر اہ سے گھر پیدا نہیں کیا۔ بلکہ یہ بار آور پودا حضرت شاہ ہمدان جیسے نیک و کامل بزرگان دین کے ہاتھوں کا لگایا ہوا ہے اور نہی کی مساعی تبلیغ دین کا نتیجہ ہے جنہوں نے گھر بار اور وطن محض اس لئے ترک کئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام سے ان دیار و ممالک کے بسنے والوں کو بہرہ ور کریں اور الحمد اللہ کہ وہ بدرجہ اتم کامیاب ہوئے۔ دوسری بات جسے مسلمانان ہند کبھی نظر انداز نہیں کر سکتے یہ ہے کہ ان کی تمام قوم میں سب سے بڑھ کر اگر صناعی و ہنر مندی اور تجارت کو بخوبی چلانے کے جوہر نمایاں طور پر کسی طبقے میں موجود ہیں تو وہ یہی اہل خطہ کا گروہ ہے۔‘‘
افسوس ہے کہ اہل کشمیر کی زبوں حالی انہیں اپنی قوم کا مفید عنصر بننے کے راستے میں مانع آ رہی ہے بلکہ اقوام عالم کی اس نوع کی ترقی ان کی خدمات سے محروم ہے۔ ورنہ اگر ان کی زندگی بھی قوموں کی زندگی ہو تو صناعی اور ہنر مندی کے طبعی جوہر ہندوستان کی اقتصادی حالت کو بدل دینے میں ممد ثابت ہوں۔ بہرحال اہل خطہ قومیت اسلامیہ ہند کے جسم کا بہترین حصہ ہیں اور اگر وہ حصہ درد و مصیبت میں مبتلا ہے تو ہو نہیں سکتا کہ باقی افراد ملت فراغت کی نیند سوئیں۔ (44(
بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ہندوستانی مسلمانوں کے قائدین نے اپنی زندگیاں چند عظیم مقاصد کے حصول کے لئے وقف کیں جن میں عام طور پر مسلمانوں کی جہالت اور ناخواندگی کا خاتمہ، قومی سطح پر سیاسی بیداری اور انسانی حقوق کے تحفظ کا احساس، انگریزوں کے نو آبادیاتی نظام کے خلاف دوسرے گروہوں کے دوش بدوش جنگ آزادی میں بھر پور شمولیت اور پاکستان کی تخلیق شامل ہیں۔
اقبال نے اگرچہ ان سبھی شعبوں میں اپنی استعداد اور فکر و عمل کے سہارے حتی المقدور کام سر انجام دئیے لیکن ان کا عشق تو کشمیر کی آزادی سے ہوا تھا اور کشمیر ان کا محبوب ہوتے ہوئے ان کے دل و دماغ پر ہر طرح سے چھایا ہوا تھا۔
کشمیر کی تحریک آزادی کے تعلق میں اقبال کو ایک ہی پریشانی لاحق ہوئی کہ وہ مسلمانوں کی تفریق اور اختلافات کے باعث بار بار دل افسردہ ہوتے رہے۔ وہ اس وادی زرخیز کی کشت ویران میں آزادی اور نئی زندگی کے پھول کھلتے دیکھ کر اپنی سب سے بڑی تمنا کو پورا کرنے کے خواہاں تھے لیکن عمر نے ان کے ساتھ وفا نہ کی۔
آخری عمر میں اقبال کی ایک بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ ایک بار پھر کشمیر آ سکیں لیکن ان کا یہ ارمان تشنہ تکمیل ہی رہ گیا اور وہ کشمیر کی آئندہ نسلوں کے لئے یہ بشارت دے کر ہم سے بچھڑ گئے کہ :
جس خاک کے ضمیر میں ہو آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند
٭٭٭
حوالہ جات
چھٹا باب: اقبال اور تحریک آزادی کشمیر
1اقبال ان کا نام اور کام، دریا د اقبال، مرتبہ خواجہ عبدالحمید، گورنمنٹ کالج لاہور ص51-53
2پیام اقبال، مرتبہ عبدالرحمان طارق، چمن بک ڈپو دہلی 1938ئ، ص42-43
3 مقالات ممتاز، ڈاکٹر ممتاز حسن، ادارہ یادگار غالب کراچی، 1995ء ، ص317
4روزنامہ الجمعیتہ دہلی، 10اپریل 1977
5منقولہ از اقبال اور کشمیر، آزاد، ص130
6سرود رفتہ، مرتبہ مہر و صادق علی، ص80
7اقبال اور انجمن کشمیری مسلمانان، محمد عبداللہ قریشی، ادبی دنیا لاہور، اپریل 1973ء
8خلاصہ از کشمیری میگزین لاہور، جنوری 1909
9سول اینڈ ملٹری نیوز لدھیانہ، کشمیری میگزین لاہور مارچ1909
10لارڈ ہوریشیو ہر برٹ کچنر جو 1902ء سے 1909ء تک بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف رہے۔
11 کشمیری میگزین لاہور، مئی 1909
12کلیات مکاتیب اقبال جلد اول، ص168-170
13کشمیری میگزین لاہور، جون1909
14یہ رویداد محمد عبداللہ قریشی نے لاہور کے ادبی دنیا جریدہ کے اپریل 1973ء کے شمارہ میں قلم بند کی ہے۔
15ان دنوں یعنی رواں صدی کے اوائل میں ہزاروں مفلوک الحال کشمیری مزدوری کرنے کی غرض سے پنجاب کے شہروں لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی، امرتسر، جالندھر اور لدھیانہ جایا کرتے تھے، ان جگہوں کے مقامی باشندے اور مغرور اہل دول انہیں ’’ ہتو‘‘ کہہ کر پکارتے تھے جس کے معنی ہیں ’’ ارے‘‘ یا’’ اوے‘‘
16روزنامہ نوائے صبح سری نگر، 5مارچ1978
17دی مسلمان، کلکتہ 13 اگست1931
18دی سٹیٹس مین، کلکتہ 28جولائی 1931
19 روزنامہ انقلاب لاہور، ادارہ 31جولائی 1931
20پولیٹکل اویکننگ ان کشمیر، رویندر جیت کور، اے پی ایچ پبلشنگ کارپوریشن نئی دہلی، 1996ء ص156
21ایضاً ص157
22روزنامہ انقلاب لاہور، علامہ اقبال کے خلاف ناپاک غلط بیانی 16اگست1931ء
23روزنامہ انقلاب لاہور، 29اگست1931
24ایضاً 29اگست1931
25اقبال کا سیاسی سفر، محمد حمزہ فاروقی، بزم اقبال لاہور، 1992ء ، ص330
26روزنامہ انقلاب لاہور، 13اگست1931
27ہفت روزہ کشیر راولپنڈی، 3اگست1982
28روزنامہ انقلاب لاہور، 8جون1933
29ایضاً
30ایضاً
31ایضاً، 6اگست1933
32چودھری سر محمد ظفر اللہ خان جو بعد میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ بن گئے۔
33اقبال اور سیاست ملی، رئیس احمد جعفری ندوی، اقبال اکیڈمی کراچی 1958ء ص 301-304
34کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم، اردو اکادمی دہلی 1993ء ص395
35ایضاً ص397
36اقبال اور سیاست ملی، ص156-157
37ایضاً، ص158-159
38اوراق گم گشتہ، رحیم بخش شاہین، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، 1979ء ص28
39کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم ص389
40ایضاً، ص466
41ایضاً، ص402
42اقبال اور سیاست ملی، ص299-300
43کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم، ص364
44زندہ رود، جاوید اقبال، ص817-818
٭٭٭

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *