پیر، 6 مئی، 2019

صحافت کے نام پر دھوکا اور فریب

صحافتی دجل

آج دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ  ہر کو ئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب جانتا ہے جو کہ ممکن نہیں ہے لیکن کیا  کہیے اس بیماری میں مبتلہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ  وہ سب نہیں جانتے خیر بات یہ ہے کہ پروفیسر اسٹفن ہاک جیسے لوگوں  کے کام اور کردار کو سمجھنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے اُس کا ذکر نہ تو کتابوں میں ہے  اور نہ ہی  کہیں سے خریدا جا سکتا ہے  یہ  خالصتاً  عطاءِ  ربِ کریم ہے وہ جسے چاہے نواز دے ۔لیکن ایک عمومی اصول  اور قائدہ ہے کہ کسی بات کی اصل جانے بنا  اسے آگے بیان نہ کیا جائے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہر انسان کی بات  کسی خاص پس منظر  کو مدِنظر رکھ کر کہی ہوتی ہے ۔لہذا ایسی بات صرف اسی حوالے کو مدِنظر رکھ کے دیکھنی چاہئے کسی دوسری جگہ حوالہ دینے سے بات کا مطلب اور مفہوم یکسر تبدیل ہو کے رہ جائے گا انجانے یا غلطی فہمی سے ایسا ہو جانا تو ایک الگ بات ہے لیکن جانتے بوجھتے ایسا کرنا بدنیتی ،صحافتی بددیانتی اور انتہائی غیر ذمہ داری ہے جس سے معاشرے میں شر اور فساد جنم لیتاہے۔موجودہ دور میں صحافت کے اس رخ کو سمجھنے کے لئے پوری دنیا میں پھیلے سازشی جال کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ان سازشوں کے پیچھے چھپے خفیہ ہاتھ درحقیقت انہیں لوگوں کے ہیں جو بُرائیوں کو خوبصورت پیکنگ میں عوام ناس تک پہنچانے کے ماہر ہیں۔ان کا سب سے پسندیدہ مشغلہ شر اور فساد کا ماحول پیدا کرنا اور ہر طرف پھیلا دینا۔پچھلے دو ہزار سالوں میں ان لوگوں نے اپنے اس فن میں اس قدر مہارت حاصل کر لی ہے کہ اب یہ دنیا کے جس کونے میں چاہتے ہیں شر اور فساد بڑھکا دیتے ہیں۔لیکن سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آیا وہ کون سے ٹولز اور ہتھیار ہیں جن کے استعمال اور مدد سے یہ کام کیا جا رہا ہے۔آپ میری بات سے اتفاق کریں یا اختلاف لیکن یہ حقیقت ہے کہ شر اور فساد پھیلانے کا سب سے بڑا اور موثر ہتھیار صحافت ہے جو خوبصورت پیکنگ اور لبادے میں میڈیا نامی دوکان سے  پوری دنیا میں فروخت ہو رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ میڈیا کا کام عوام کو ہر پل با خبر رکھنا ہے۔ایک عام سا سوال ہے کہ "میڈیا عوام کو کس چیز سے با خبر رکھنا چاہتا ہے" کیا  ہر خاص و عام کے لئے ہر چیز سے با خبر ہونا لازم اور انتہائی ضروری ہے؟ کیا ہرشخص کے لئے ہر طرح کی معلومات حاصل کرنے سے اس کے معیارِ زندگی اور کاروبار میں کوئی بہتری آتی ہے؟ یا اس کے لئے صرف اس کے روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے معاملات تک کی معلومات ہی کافی ہیں! مشاہدے اور تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ کسی بھی فیلڈ میں کام کرنے والوں کے لئے کام سے متعلق ضروری علم ان کی کارگردی اور کام کے معیار کو بہتر بنا دیتا ہے جبکہ غیر ضروری معلومات سے انہیں اپنے کام میں فیصلے کرنے سے لے کر عملی اقدام اُٹھانے تک میں پریشانی اور دشواری کا سامنا کرنا پڑھتا ہے جس سے مجموعی طور پر ان کے کام کرنے کی صلاحیت اور معیار دونوں پر بُرا اثر پڑھتا ہے۔اس تمحید سے کم از کم عام آدمی کے لئے یہ جاننا آسان ہو جائے گا کہ اس کے ساتھ آخر ہو کیا رہا ہے اور وہ کیوں پریشان ہے وہیں اسے یہ بھی سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ہر چیز کا جاننا اس کے لئےسودمند نہیں بلکہ نقصان دے ہے۔اور اسی چیز نے اس کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے۔دنیا کے دوسرے کونے میں ہونے والے حادثے کو جاننے سے اس کی زندگی اور کام کے لئے کس طرح سے فائدے مند ہو سکتا ہے؟ اور نا جاننے کی صورت میں اسے  کیا  نقصانات ہو سکتے ہیں۔
ائے میرے بھولے ہم وطنوں کاش تم جان سکتے تمہیں کس طرح غیر ضروری چیزوں میں الجھا کر انتہائی ضروری اور لازمی امور سے تمہاری توجہ ہٹا دی گئی ہے۔کاش تم جان جاؤ جسے تم علم و آگہی سمجھے بیٹھے ہو وہ ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں جسے تم آزادی و خودمختاری خیال کرتے ہو وہ ایک ایسی قید ہے جس کی سلاخیں دیکھنے سے تم قاصر ہو اور اسے اپنی آزادی کا نام دے رہے ہو۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔آپ نے فورتھ اور فیفتھ جنریشن وارز کا نام حالیہ اور پچھلے چند ایک سالوں میں سُنا ہو گا یہ کیا ہیں؟ اس طرح آپ نے میڈیا  اور  پراکسی وارز جیسے الفاظ بھی بہت دفعہ سنے ہونگے یہ سب کیا ہیں کس مقصد کے لئے ہیں اور کس طرح سے کام کرتے ہیں ۔کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور و فکر کیا ہے کہ آج دنیا میں ہونے والے واقعات کے پیچھے اصل حقائق وہی ہوتے ہیں جو میڈیا آپ کو دیکھاتا ہے؟ چلیں جھوٹ سچ کو بھی ایک لمحے کے لئے نظر انداز کر دیں کیا میڈیا پر دیکھائے جانے والے حالات سے آپ کے دل و دماغ پر مثبت اثرات مرتب  ہوتے ہیں یا منفی ؟ مزید یہ کہ کیا ان معلومات سے آپ کی زندگی میں خود اعتمادی اور آسانیاں آتی  ہیں یا آپ خوف نااُمیدی اور مایوسی کے اندھیروں میں گرتے جاتے ہیں؟ اس پہیلی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
جھوٹ ہر شکل و صورت میں قابل مزمت اور قابل نفرت ہے کیونکہ اس سے اصلیت اور حقیقت مسخ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کہ ہر معاشرے اور مذہب میں اس کی ممانعت کی گئی ہے۔جھوٹ کی ہزاروں قسمیں ہو سکتی ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ  خطرناک جھوٹ وہ ہوتا ہے جس میں معمولی سی سچائی بھی پائی جائے۔یا اس طرح سے سمجھ لیں کہ ایسا جھوٹ جسے سچ کے تڑکے کی خوشبو اور رنگت دے کر لوگوں کے لئے انتہائی رغبت انگیز بنا دیا جائے۔اس طرح کبھی سچ کو چھوٹ کا تڑکا لگا کر لوگوں میں اسے  قابل نفرت بنا دیا جائے ۔دونوں صورتوں میں مقصد اولیں یہی ہے کہ سچ کو مسخ کر دیا جائے اور جھوٹ کو پروان چڑھایا جائے۔موجودہ دور میں ہر طرح کا میڈیا یہی کام  انتہائی زمہ داری سے انجام دے رہا ہے۔کہیں سچ میں جھوٹ ملایا جا رہا ہے تو کہیں جھوٹ کو سچ بنا کے دیکھانے کے لئے اس میں زرا سا سچ شامل کیا جا رہا ہے۔
میڈیا اگر لوگوں کو با خبر رکھنے کا کام بھی پوری ایماندری سے کرتا تو تب بھی یہ کسی طرح سے لوگوں کے لئے فائدے مند نہیں تھا ۔میڈیا کا کام لوگوں کو آگاہ اور باخبر رکھنا نہیں ہے بلکہ ان کے روجانات، رویوں اور ردِعمل پر قابو پانے کے لئے ان کے دماغوں کو کنٹرول کرنا ہے۔پوری دنیا میں بل عموم یہی صورتِ حال ہے۔اگر میڈیا کا کردار مثبت ہے تو دنیا میں امن سکون اور برداشت کو پروان چڑھنا  چاہیے تھا جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس پوری دنیا میں بدامنی اور بے چینی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اورمیڈیا جس چیز کی بنیاد پر کام کرتا ہے سب جانتے ہیں کہ وہ صحافت ہے۔ آپ کہیں گے کہ سب صحافی ایسے نہیں ہیں اچھے بُرے لوگ ہر جگہ اور ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں۔ سننے میں یہ جواب انتہائی معقول اور بلکل درست معلوم ہوتا ہے۔لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ جواب بھی اسی فریب خوردہ ماحول اورجھوٹ  سچ کے امیزے سے ریڈی میڈ علم کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ہے۔کیا اس دلیل اور منطق کو ہم اپنی زندگی کے تمام امور پر بھی لاگو کرتے ہیں؟ مثلاً کیا ہم اپنے کھانے میں تھوڑا سا زہر ملنے کی صورت میں کھانا پسند کریں گے؟ کیا ہم اپنے گھر میں کسی ایسے غیر متعلقہ شخص کو مستقل رہنے کی اجازت دیں گے جو گھر کے پاکیزہ ماحول میں ہر وقت بے حیائی پیدا کرنا چاہتا ہو؟ میرا خیال ہے ایک عقل و شعور رکھنے والا شخص ہرگز  ہرگز یہ برداشت نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس طرح کے کسی کام کی اجازت دے سکتا ہے۔  انسانی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں سب سے پچیدہ چیز انسانی دماغ کی نفسیات کو سمجھنا ہےاور جو آج بھی سائنس دانوں  اور اس شعبےکے ماہرین کےلئے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ لیکن اس مسئلے کا حل اگر کسی فلسفے ،تھیوری اور علم نے پیش کیا ہے تو وہ مزہب ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اور شریعتِ محمدیﷺ اپنے ماننے والوں کوپہلے تو ایسا  کوئی حکم ہی نہیں دیتی جو عقل کے مخالف اور متضاد ہو پھر مزید یہ کہ اگر تجھے کوئی بات یا چیز شک میں ڈالے تو ایسے کام کو چھوڑ دو۔ اب اس بات کو پیشِ نظر رکھ کر میڈیا کے کام اور کردار کو دیکھیں کیا میڈیا مسلسل لوگوں کو شک شعبے میں مبتلہ نہیں کئے ہوئے؟ کیا صحافت ہی وہ ہتھیار نہیں ہے جس کے ذریعے آج ہر طرف افواہوں اور افراتفری کا ایک نہ ختم ہونے والا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ جسے پڑھ لکھ کے شعور  و اگہی ملنی چاہیے تھی وہی سب سے زیادہ جہالت کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔بوسنیا اور سربیا  کے حالات تو آپ نے سن رکھے ہوں گے جہاں انسانوں کو وحشی درندوں کی طرح قتل کیا گیا حاملہ ماؤں کے پیٹ چاک کئے گئے  مغربی تہذیب و ثقافت اور مغربی تعلیم کے گیت گانے والو یہ وحشی قاتل  اور درندے جنہیں تم پڑھے لکھے کہتے ہو سب وہی تھے بلکہ زیادہ تر یونیورسٹی لیول کے تعلیم یافتہ تھے۔ اسی تعلیم و تربیت کے خالق موجودہ  میڈیا کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں اور دنیا کو آگ و خون میں نہلا رہے ہیں اور جاہل  صحافت  دان بنے پھرتے ہیں۔ 
صحافت نام کی کوئی چیز دنیا میں نہیں تھی اہل مغرب اور اہل یہود کی عقل و دانش ملا کر بھی حضور نبیِ کریم کی فہم و فراست کے سامنے رائی کےایک دانے جتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ ریاست ِ مدینہ تو بہت ہی بڑی مثال ہو جائے گی میں خلافتِ راشدہ کی مثال بھی نہیں دیتا  بتاؤ ترک خلافتِ عثمانیہ کے طویل دور ِ حکومت میں صحافت کہاں  تھی اور سلطنتِ عثمانیہ کی باگ دوڑ اور ترقی  میں صحافت  کے علمبردار کہاں تھے؟ مشیروں و وزیروں اور سفارت کاروں کو صحافت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔چلو اور قریب کے زمانے میں آ جاتے ہیں بررِصغیر میں انگریزوں کی آمد سے پہلے یہاں کون سی صحافت اور صحافی برادری تھی؟  
1609ء میں جرمنی سے پہلا مطبوعہ خبرنامہ (اخبار ) اویساریشن آرڈرزیٹنگ ( Avisa Relation order zeitung) شائع ہوا جبکہ انگریزی صحافت کی ابتدا 13 سال بعد ہوئی جب 1622ء میں لندن سے ویکلی نیوز کا اجراء ہوا۔ لیکن اردو صحافت کو پہلا قدم اٹھانے کے لئے ابھی دو سو سال کا انتظار کرنا ہی تھا۔ 27 مارچ 1827ء کو کلکتہ سے شائع ہونے والے فارسی ہفت روزہ “جامِ جہان نما” کو منشی سدا سکھ مرزا پوری نے اردو کے قالب میں ڈھالا اور یوں پہلی بار اردو صحافت کاآغاز ہو گیا اور پھر اس نوزائیدہ زبان (اردو ) نے ادب اور شاعری کے علاوہ صحافت کے میدان میں بھی غضب ڈھالا۔ اگر سرسیّد اور مولانا محمد حسین آزاد کی نثر نے قیامت برپا کر دی تو میر اور غالب نے اردو شاعری کو فارسی کے برابر لا کھڑا کیا ظاہر ہے اردو صحافت کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔ پہلے اخبار جام جہاں نما میں گنتی کی چند خبریں یا ایک دو شعر ہوتے جو غیر دلچسپ تھیں لیکن جب فروری 1837ء میں مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے دہلی سے اپنا اخبار “دہلی اخبار “ جاری کیا تو اردو صحافت نے اپنی اہمیت جتانا شروع کردی۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد یہ اخبار بند ہوا اور مولوی محمد باقر کو انگریز حکومت نے پھانسی دے دی، لیکن اس دوران اردو کے کئی معتبر صحافی اور اخبارات میدانِ صحافت میں کود چکے تھے۔
ان میں سرسیّد احمد خان، منشی نول کشور اور تاج الدین وغیرہ قابل ذکرہیں، جبکہ سید الا خبار اور کوہ نور وغیرہ اہم اخبارات تھے۔ تاہم بیسویں صدی کے آغاز میں زمیندار، کامریڈ اور الہلال جیسے بڑے اخبارات لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئے تھے اور ان اخبارات کو نکالنے والے مولانا ظفر علی خان محمد علی جوہر اور ابوالکلام آزاد جیسے نابغہ روزگار لوگ تھے۔
اردو کا پہلا کالم مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار میں افکار و حوادث کے نام سے چھپنے لگا جیسے عبدالمجید سالک لکھتے تھے، اور پھر تو بڑے لکھاریوں اور بڑے اخبارات کا ایک طویل سلسلہ ہے جو مولانا عبد الماجد دریا آبادی، چراغ حسن حسرت، محمود نظامی، احمد ندیم قاسمی اور باری علیگ سے ہوتا ہوا نذیر ناجی، مجیب الرحمٰن شامی، عباس اطہر اور منوبھائی تک چلا آتا ہے جبکہ اخباری سلسلہ سچ، ہند اور احسان سے ہوتے ہوتے نوائے وقت اور جنگ تک چلا آتا ہے۔ بدقسمتی سے آج ہماری صحافت کے میدان میں زیادہ تعداد ایسے  لوگوں کی ہے جو خود کو نا صرف صحافی سمجھتے ہیں بلکہ صحافت کے بابائے آدم ہونے کا بھی دعویٰ رکھتے ہیں۔
تاہم یہ ضروری نہیں کہ ڈرا جائے یا جاہلوں کے غول کے سامنے ہتھیار پھینک دیے جائیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ممالک مثًلا اری ٹیریا میں ریاستی جبر اور ظالمانہ سنسر کے باوجود بھی صحافی اور دانشور ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں پرنٹ میڈیا کو الیکٹرانک میڈیا باوجود اپنی پذیرائی اور انتہائی کوشش کے اس لئے پیچھے دھکیلنے میں کامیاب نہیں ہوا کہ پرنٹ میڈیا نے صحافت کا اعلٰی ترین معیار برقرار رکھا ہے جو سینکڑوں سالوں سے پرنٹ میڈیا کا خاصہ ہے اور یہ ایک طویل ریاضت کے بعد اس کے ہاتھ لگا ہے!
سو اردو پرنٹ میڈیا کے لئے ضروری ہے کہ ریاستی جبر کے شکار ممالک کے صحافیوں سے ڈٹنا سیکھیں اور ترقی یافتہ ممالک کے پرنٹ میڈیا کی مانند معیار کو شعار بنائیں کیونکہ کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں سو اس نقار خانے میں بقاء کا آخری راستہ بھی یہی ہے!



رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *