صہیونیت کی تاریخ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
صہیونیت کی تاریخ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 8 فروری، 2019

صہیونیت کی تاریخ

صہیونیت کی تاریخ
تحریر: جلالؔ
ایک اصطلاح ” عیسائی صہیونی©©“ (Christian Zionist) عام استعمال کی جاتی ہے۔ تمام دنیا اور خاص طور پر اسلام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے سمجھنے کیلئے اس اصطلاح اور صہیونیت کی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ہم عمومی طور پر صہیونیت کو یہودی مذہب سے جڑا کوئی رجحان سمجھتے ہیں۔ دراصل اسکا کرسچن اور یہودی دونوں مذاہب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ انتہا پسند نظریہ ہے جو کئی صدیوں سے ان دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو اس خوبصورتی سے استعمال کر رہا ہے کہ ان مذاہب کے پیروکاروں کو بھی اس کا احساس نہیں ہے۔ اس سب کو سمجھنے کیلئے سچے کرسچن اور ”کرسچن صہیونی“ کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے ۔ بدقسمتی ہے خود حضرت عیسیٰ ؑ کے ماننے والے بھی اس فرق کو پوری طرح نہیں سمجھتے۔ روایتی کیتھولک چرچ کا ” صہیونیت‘ ‘ سے دور دور کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ صہیونیت کی جڑیں سولہویں اور صدی اور اسکے بعد انگلینڈ میں ملتی ہیں۔ پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے کیتھولک چرچ سے اختلافات اور جنگوں کے بعد پروٹسٹنٹ عیسائیوں میں ایک فرقہ ” پیوریٹن“ (Puritans) ملتا ہے۔ یہ انتہا پسند نظریات رکھنے والا ایک گروہ تھا جن کا خیال تھا کہ ان جنگوں کے نتیجے میں ہونیوالی ”پروٹسٹنٹ اصلاحات“ کافی نہیں ہیں۔ ساتھ ہی انکا یہ عقیدہ بھی ہے کہ انکے ”نجات دہندہ“ کے ظہور کیلئے ضروری ہے کہ ”گریٹر اسرائیل“ کی ریاست کا قیام ہو جس میں یروشلم پر یہودیوں کی حکومت ہو۔ انگلینڈ سے یہ عقیدہ امریکہ پہنچا۔ امریکہ میں انکا اثر رسوخ بڑھتا گیا یہاں تک کہ 1808 میں امریکہ میں باقاعدہ تحریک چلی جس میں کہا گیا کہ ”سلطنت عثمانیہ“ کا خاتمہ اور گریٹر اسرائیل کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔ اسی طرح 1825 میں ایک امریکی صہیونی ”Mordecai Manuel Noah“ نے ایک تحریک چلائی کہ نیویارک کے علاقے میں ایک یہودی شہر بسایا جائے جو فلسطین کے علاقے پر یہودی ( دراصل صہیونی) قبضے کیلئے ایک ” بیس کیمپ“ کے طور پر کام کرے ۔ اس تحریک کو امریکی عیسائیوں کی جانب سے خاصی پزیرائی ملی۔ اس سے ان صہیونیوں کا مقصد یہودیوں سے ہمدردی نہیں بلکہ وہ یہ سب اس لیے کر رہے تھے ( اور اب بھی کر رہے ہیں) کیونکہ انکا عقیدہ ہے کہ جب تک گریٹر اسرائیل کا قیام نہیں ہو گا انکا نجات دہندہ نہیں آئیگا۔ امریکہ کے دوسرے صدر ”جان ایڈمز“ نے 1818 میں لکھا تھا ” میری شدید خواہش ہے کہ آزاد یہودی ریاست کا قیام ہو“۔ آگے چل کر انہوں لکھا کہ انکا عقیدہ ہے کہ تمام یہودی وقت کے ساتھ ساتھ Unitarian Christian بن جائینگے۔ یاد رہے کہ صہیونیوں کے انتہا پسندی پر مشتمل عقائد در اصل نہ صرف اصل یہودی عقائد سے متصادم ہیں بلکہ اصل مسیحی عقائد کے بھی خلاف ہیں۔ اسی طرح 1844 میں نیویارک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ” جارج بش“ نے ایک کتاب (The Dry Bones of Israel Revived) لکھی جس میں مندرجہ بالا نظریہ پیش کرنے کے بعد کہا گیا کہ ان واقعات کے بعد تمام دنیا پر صہیونیوں کی مکمل حکومت قائم ہو جائےگی۔ ایک اور ” اتفاق‘ ‘ یہ بھی ہے کہ یہ پروفیسر بعد میں امریکہ کے صدر بننے والے جارج بش کے اجداد میں سے تھے۔ امریکہ میں صہیونیوں کی تنظیم Zionist Organization of America کا قیام 1897 میں ہو گیا تھا۔ اس تنظیم نے اسرائیل کے قیام اور امریکی اداروں اور حکومت کی جانب سے اسرائیلی حکومت اور یہودی صہیونیوں کیلئے امداد حاصل کرنے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ یہ تنظیم اب بھی قائم ہے ۔ دیگر سرگرمیوں کے ساتھ یہ تنظیم اس بات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے کہ امریکی میڈیا، امریکی درسی کتب، اور امریکی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں کوئی ایسی چیز نہ شائع ہو اور نہ بولی جائے جو کسی بھی طرح سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر صہیونیت کے خلاف ہو۔دوسری جانب برطانیہ کو دیکھیں تو برطانیہ پر قابض صہیونی طاقتیں سولہویں صدی کے بعد سے یہودیوں کی اسرائیل میں آباد کاری اور اور گریٹر اسرائیل کے قیام کیلئے کام کرتی نظر آتی ہیں۔ برطانیہ نے 1838 میں یروشلم میں قونصل خانہ قائم کر دیا تھا ۔ 1839 میں چرچ آف سکاٹ لینڈ نے ایک مشن فلسطین کے علاقے میں بھیجا۔ اس مشن نے ان تمام علاقوں میں یہودیوں سے یہ استفسار کیا کہ اگر انکو موقع ملے تو کیا یہ اسرائیل میں جا کر بسنے کیلئے تیار ہیں؟ اس مشن کے ایک رکن الیگزینڈر کیتھ نے یہ تمام روداد 1844 میں اپنی ایک کتاب میں شائع کی۔
اوپر بیان کردہ تمام باتیں کوئی ” سازشی نظریہ“ یا داستان گوئی نہیں بلکہ تاریخ کی کتب میں موجود حقائق ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ دراصل ” صہیونیت“ کا تعلق نہ تو اصل مسیحی مذہب سے ہے اور نہ اصل یہودیوں سے بلکہ یہ انتہا پسند مذہبی نظریات رکھنے والے لوگ ہیں جو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے تمام مذاہب کے لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ ایک جانب اسرائیل پر یہودی صہیونیوں کا قبضہ ہے تو امریکہ کی حکومت اور ادارے ” عیسائی صہیونیوں “ کے زیر اثر ہیں۔ اسی لیے یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی مدد کرنے کیلئے ہر ممکن حد تک جاتے ہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں کو دراصل اور درپردہ صہیونیوں کی مدد حاصل ہے۔ کئی سو برس سے یہ طاقتیں تمام دنیا میں ” مذہبی انتہا پسندی“ کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان بھی مذہب کے نام پر اکٹھے ہوں، اور انسانیت اور اسلام کے ان دشمنوں کو نہ صرف پہچانیں بلکہ اپنے تمام وسائل یکجا کر کے انکو دنیا کے سامنے بے نقاب کریں۔


رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *