منگل، 5 مارچ، 2019

وقت کیا بلا ہے!

وقت

تحریر :محمد ظہیر اقبال

جوں جوں انسانی علم  میں بلندی  آتی گئی ہے اور علم  کی سطح بلند سے بلند تر ہوتی گئی  اور  انسانی معلومات وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی تو  علوم  کی درجہ بندی (Classification) ناگزیر  ہو گئی۔


لہذا جدید سائنس نے وقت کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

١- تصوراتی وقت Conceptual Time
ان کے نزدیک وقت کی ایک قسم خیالی یا تصوراتی ہے ۔ جس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ،ہر انسان کا اپنے خیال اور تصور کے مطابق ایک وقت ہوتا ہے ۔ جو دوسروں سے قطعی مختلف ہوتا ہے ۔۔۔۔

٢- ادراکی وقت Perceptual Time
ان کے نزدیک وقت کا تعلق ہمارے ہوش و حواس سے ہے اور ہم اسے ماضی ، حال ، مستقبل میں تقسیم کر دیتے ہیں اسی کو زمانِ گرداں Serial Time بھی کہتےہیں ۔۔ جس میں پہلے اور بعد کا تصور موجود ہے ۔۔

٣- جسمانی وقت Physical Time
اس کا تعلق اجرام فلکی سے ہے اور اسی میں دن رات ، ماہ و سال کا حساب رکھا جاتا ہے ۔۔۔

٤- مطلق وقت Absolute Time
اسے سب سے پہلے نیوٹن نے پیش کیا تھا ۔اس کے مطابق اس وقت کی رفتار ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے اور کائنات کی کوئی شے اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔ ایک عراقی شاعر نے اسے تقدیر وقتDivine Time کہا ہے کہ یہ ہمیشہ حال میں ہی رہتا ہے ، اور قرآن نے اسی زمان ِ الہیٰ کو اُم الکتاب کہا ہے ۔۔

مشہور فلسفی نکولنس نے کہا تھا وقت انسانی زہن کی پیداوار ہے خارج میں اس کا کہیں کوئی وجود نہیں ۔۔۔ برونو نے کہا تھا کہ حرکت اور زماں و مکاں سب اضافی چیزیں ہیں اور کائنات میں ان کا کوئی وجود نہیں ۔۔۔ کانٹ زماں و مکاں کے ذاتی وجود سے انکاری ہے ۔۔۔۔مشہور فلسفی لائنسٹر کے نزدیک یہ اصلاحات حرکت ِ اضافی ہیں ۔۔

مسلمانوں کے بابائے فلسفی علامہ اقبال نے وقت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔۔
سلسلہ وار وقت  Serial Time
 ایک وہ جسے ہم زمان  گزراں  Serial Time کہتے ہیں ۔ یہ وقت غیر حقیقی ہے ،جسے ہم ماضی ، حال ، مستقبل میں تقسیم کرتے ہیں ۔اس کا تعلق ہماری روز مرہ زندگی سے ہے جس میں حضرت انسان اُلجھا ہوا ہے ، اور یہی مادہ پرستی کو دعوت دیتا ہے کہ جس میں حضرت انسان اس وقت کی بے سمت ریلے میں پھنس کر رہ گیا ہے ۔۔۔۔۔

اقبال کے مطابق وقت کی دوسری تقسیم ہماری قدریں آفریں شخصیت سے ہے ۔ اور یہی حقیقی وقت کی تقسیم ہے ۔۔ اس کا مطلب ہے کہ حضرت انسان اپنی سود وزیاں کی بھول بھلیوں سے نکل کر اپنی تخلیقی فعلیت کو بہترین مقام پر لے جائے اور اس ارتقائی عمل میں خدائے بزرگ و برتر کا مددگار بن جائے ، جو فعل قدرت با مجبوری نہیں کر سکتی وہ یہ حضرت انسان خود کرے ۔۔۔۔

اس ساری تمہید کا مقصد یہ نکلتا ہے کہ

فرد کی عمر کا اندازہ اُس کے ماہ و سال سے نہیں لگانا چاہیے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں کس قدر تخلیقی کام سر انجام دیئے اور وہ فلاح انساں بنے ۔۔۔۔۔۔

جو کسی نے کہا ہے کہ : نہ محبت نہ دوستی کے لئیے، وقت رکتا نہیں کسی کے لئیے۔

وقت: ہم وقت کی پہچان سیکنڈوں، منٹوں، گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں کرتے ہیں۔

ان سب پیمانوں کا تعلق صرف ہمارے سولر سسٹم سے ہے۔ سورج کے گرد زمین کا ایک چکر ایک سال کا پتہ دیتا ہے، جب کہ ہمارا دن زمین کی اپنے محور پر گردش کے سبب وجود میں آتا ہے اور اسی طرح ہفتہ چاند کی زمین کے گرد گردش کا مرہون منت ہے۔
ہم جانتے ہیں یہ کائنات اربوں کہکشاؤں کا مجموعہ ہے اور ہماری ملکی وے میں دو سے تین کھرب سولر سسٹمز ہیں، فرض کریں سارے سولر سسٹم موجود رہیں اور صرف ہمارا سولر سسٹم نہ ہو تو ہمارے گھڑے ہوئے وقت کے یہ سب پیمانے پلک جھپکنے میں ختم ہو جائیں گے، اب ایک اور چیز فرض کریں کہ ہم خلا میں معلق ہوں اور ہماری کوئی زمین نہ ہو اور پھر ایک اور چیز فرض کریں کہ ہماری نظر بھی انتہائی کمزور ہو کہ ہم ستاروں کو بھی نہ دیکھ پائیں۔۔۔

اب بتائیں ہم وقت کا تعین کیسے کریں گے؟

ظاہر ہے تب ہمارے پاس وقت کا کوئی فطری پیمانہ نہیں ہوگا سوائے ماضی حال اور مستقبل کے۔ اور آئن اسٹائن کے مطابق ماضی حال اور مستقبل کا وجود صرف مشاہدہ کرنے والے سے ہے ان کا اپنا کوئی وجود نہیں۔ ایک ہی وقت میں ماضی حال اور مستقبل موجود ہوتے ہیں بس ان کا مشاہدہ کرنے والا ہونا چاہیئے۔ آپ کا ماضی کسی کا مستقبل رہا ہوگا اسی طرح کسی کا حال آپ کا ماضی تھا اور آپ کا مستقبل کسی اور کے لیے ماضی ہوگا۔ ہم جب ستاروں کو دیکھتے ہیں تب ہم ان ستاروں کا کروڑوں سال پرانا ماضی دیکھ رہے ہوتے ہیں عین ممکن ہے جس وقت ہم کسی ستارے کو دیکھ رہے ہیں وہ ستارہ ہزاروں لاکھوں سال پہلے پھٹ چکا ہو، ایک اور چیز جو آئن اسٹائن سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا وہ یہ کہ وقت مشاہدہ کرنے والے کی رفتار کے ساتھ بڑھتا اور کم ہوتا ہے۔ ستر کی دہائی میں ایٹامک کلاک کے ذریعے اس تھیوری کا تجربہ اور مشاہدہ بھی کیا جا چکا ہے۔ ایٹامک کلاک سیکنڈز کے اربوں حصوں کے وقت کو ماپنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی لیے اس سے وقت میں بہت چھوٹے پیمانے میں ہونے والی تبدیلی کا مشاہدہ بھی ممکن ہے۔ اس تجربے سے ثابت ہوا تھا کہ ہم سب کے لیے وقت کی قدر مختلف ہے لیکن یہ تبدیلی ایک سیکنڈ کے اربویں حصوں میں وقوع پذیر ہوتی ہے تو ہم اس کا ادراک نہیں کر پاتے۔

آج چاہے ہم نے اپنی سہولت کے لیے گھڑی بنا بھی لی ہے جو ہمیں گھنٹوں اور منٹوں میں وقت کے گزرنے کا احساس دلاتی ہے لیکن ہمارے لیے شاید وقت ہمیشہ ایک راز ہی رہے گا کیونکہ گھڑیاں ہمیں یہ تو بتا سکتی ہیں کہ کیا وقت ہوا ہے لیکن یہ نہیں بتا سکتیں کہ وقت بذات خود کیا ہے۔

اس کا مطلب یہی ہے کہ وقت صرف ہماری نظروں کے دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

وزن:
وزن کا معاملہ سمجھنا وقت سے بھی کہیں زیادہ آسان ہے۔ وزن بذات خود کچھ بھی نہیں اس کی پیمائش کا تعلق گریویٹی سے ہے۔ مثال کے طور پر اگر میں زمین پر 75 کلو کا ہوں تو ایک نیوٹرون سٹار پر 10500000000000 کلو کا ہوں گا، ایک ڈوارفٹ سٹار پر 97500000 کلو کا، سورج پر 2030 کلو کا، جیوپٹر پر 177 کلو کا، سیٹرن پر 80 کلو کا، مارز پر میرا وزن 28 کلو ہوگا، چاند پر 12 کلو، پلوٹو پر 5 کلو اور خلا میں میرا کوئی وزن نہیں ہوگا۔

اس کا مطلب ہے کہ ہمارے جسم کے وزن کا تعلق ہمارے جسم سے نہیں بلکہ اس جگہ سے ہے جہاں ہم ہوتے ہیں۔ یعنی وزن خود سے کچھ بھی نہیں ہے یہ تو کشش ثقل ہے جو آپ کو مختلف قوتوں سے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ بلکہ اب تو کشش ثقل کو بھی ایک Illusion قرار دے دیا گیا ہے یہ شاید کشش ثقل بھی نہیں بلکہ آئن اسٹائن کی \’سپیس ٹائم فیبرک\’ یعنی زمان مکان کی چادر کا کمال ہے۔

سمت:
سمت بھی ایک ایسی ہی چیز ہے جو اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی لیکن ہم نے اپنی آسانی اور روز مرہ کے کام انجام دینے کے لیے اسے مشرق مغرب شمال اور جنوب میں ہی نہیں بلکہ تین سو ساٹھ ڈگریوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔

ہمارے وقت کے پیمانے کا تعلق تو ہمارے سولر سسٹم کے ساتھ تھا لیکن ہماری سمت کا پیمانہ صرف زمین سے تعلق رکھتا ہے، چونکہ خلا میں کوئی قطبین نہیں ہوتی تو مشرق مغرب کا بھی کوئی وجود نہیں ہے، آپ خلا میں گھومتے ہوئے یہ نہیں بتا سکتے کہ آپکا \”اوپر\” کون سا ہے اور \”نیچے\” کون سا۔ وہاں دائیں بائیں یا مشرق مغرب کا تو تصور ہی محال ہے اور ہاں خلائی راکٹس اپنے سفر کے دوران مقناطیسی کمپاس سے رہنمائی نہیں لیتے بلکہ وہ دور دراز ستاروں کو دیکھ کر اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں اور وہ منزل مشرق مغرب نہیں بلکہ ایک غیر متعین بے نامی سمت میں ہوتی ہے۔

جمعہ، 8 فروری، 2019

مجلس شوریٰ


   ابليس کی مجلس شوریٰ

1936ء

ابلیس

يہ عناصر کا پرانا کھيل، يہ دنيائے دوں
ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں!
اس کی  بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں
ميں نے دکھلايا فرنگی کو ملوکيت کا خواب
ميں نے توڑا مسجد و دير و کليسا کا فسوں
ميں نے ناداروں کو سکھلايا سبق تقدير کا
ميں نے منعم کو ديا سرمايہ داری کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں ميں ہو ابليس کا سوز دروں
جس کی شاخيں ہوں ہماری آبياری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں!

پہلا مشير

اس ميں کيا شک ہے کہ محکم ہے يہ ابليسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی ميں عوام
ہے ازل سے ان غريبوں کے مقدر ميں سجود
ان کي فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قيام
آرزو اول تو پيدا ہو نہيں سکتی کہيں
ہو کہيں پيدا تو مر جاتی ہے يا رہتی ہے خام
يہ ہماری سعی پيہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکيت کے بندے ہيں تمام
طبع مشرق کے ليے موزوں يہی افيون تھي
ورنہ 'قوالی' سے کچھ کم تر نہيں 'علم کلام'!
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کيا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تيغ بے نيام
کس کی نوميدی پہ حجت ہے يہ فرمان جديد؟
'ہے جہاد اس دور ميں مرد مسلماں پر حرام!

دوسرا مشير

خير ہے سلطاني جمہور کا غوغا کہ شر
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہيں ہے با خبر!

پہلا مشير

ہوں، مگر ميری جہاں بينی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکيت کا اک پردہ ہو، کيا اس سے خطر!
ہم نے خود شاہی کو پہنايا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبار شہرياری کی حقيقت اور ہے
يہ وجود مير و سلطاں پر نہيں ہے منحصر
مجلس ملت ہو يا پرويز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غير کی کھیتی  پہ ہو جس کی نظر
تو نے کيا ديکھا نہيں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگيز سے تاريک تر!

تيسرا مشير

روح سلطانی رہے باقی تو پھر کيا اضطراب
ہے مگر کيا اس يہودی کی شرارت کا جواب؟
وہ کليم بے تجلی، وہ مسيح بے صليب
نيست پيغمبر و ليکن در بغل دارد کتاب
کيا بتاؤں کيا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز
مشرق و مغرب کي قوموں کے ليے روز حساب!
اس سے بڑھ کر اور کيا ہوگا طبيعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خيموں کی طناب!

چوتھا مشير

توڑ اس کا رومہ الکبرے کے ايوانوں ميں ديکھ
آل سيزر کو دکھايا ہم نے پھر سيزر کا خواب
کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا
'گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب،

تيسرا مشير

ميں تو اس کي عاقبت بينی کا کچھ قائل نہيں
جس نے افرنگی سياست کو کيا يوں بے حجاب

پانچواں مشير
(ابليس کو مخاطب کرکے)

اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار!
تو نے جب چاہا، کيا ہر پردگی کو آشکار
آب و گل تيری حرارت سے جہان سوز و ساز
ابلہ جنت تری تعليم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہيں
سادہ دل بندوں ميں جو مشہور ہے پروردگار
کام تھا جن کا فقط تقديس و تسبيح و طواف
تيری غيرت سے ابد تک سرنگون و شرمسار
گرچہ ہيں تيرے مريد افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہيں ہے اعتبار
وہ يہودی فتنہ گر، وہ روح مزدک کا بروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار
زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہين و چرغ
کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار
فتنہء فردا کی  ہيبت کا يہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہيں کوہسار و مرغزار و جوئبار
ميرے آقا! وہ جہاں زير و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تيری سيادت پر مدار


ابليس
(اپنے مشيروں سے)

ہے مرے دست تصرف ميں جہان رنگ و بو
کيا زميں، کيا مہر و مہ، کيا آسمان تو بتو
ديکھ ليں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
ميں نے جب گرما ديا اقوام يورپ کا لہو
کيا امامان سياست، کيا کليسا کے شيوخ
سب کو ديوانہ بنا سکتی ہے ميری ايک ہو
کارگاہ شيشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر ديکھے تو اس تہذيب کے جام و سبو!
دست فطرت نے کيا ہے جن گريبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہيں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہيں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
يہ پريشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر ميں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم ميں اب تک نظر آتے ہيں وہ
کرتے ہيں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ايام ہے
مزدکيت فتنہ فردا نہيں، اسلام ہے!

(2)

جانتا ہوں ميں يہ امت حامل قرآں نہيں
ہے وہی سرمايہ داری بندہ مومن کا ديں
جانتا ہوں ميں کہ مشرق کی اندھيری رات ميں
بے يد بيضا ہے پيران حرم کي آستيں
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے ليکن يہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع  پيغمبر کہيں
الحذر! آئين  پيغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفريں
موت کا پيغام ہر نوع غلامی کے ليے
نے کوئي فغفور و خاقاں، نے فقير رہ نشيں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے اميں
اس سے بڑھ کر اور کيا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہيں، اللہ کی ہے يہ زميں!
چشم عالم سے رہے پوشيدہ يہ آئيں تو خوب
يہ غنيمت ہے کہ خود مومن ہے محروم يقيں
ہے يہی بہتر الہيات ميں الجھا رہے
يہ کتاب اللہ کی تاويلات ميں الجھا رہے

(3)

توڑ ڈاليں جس کی تکبيريں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا انديش کی تاريک رات
ابن مريم مر گيا يا زندہ جاويد ہے
ہيں صفات ذات حق، حق سے جدا يا عين ذات؟
آنے والے سے مسيح  ناصري مقصود ہے
يا مجدد، جس ميں ہوں فرزند مريم کے صفات؟
ہيں کلام اللہ کے الفاظ حادث يا قديم
امت مرحوم کی ہے کس عقيدے ميں نجات؟
کيا مسلماں کے ليے کافی نہيں اس دور ميں
يہ الہيات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
تم اسے بيگانہ رکھو عالم کردار سے
تا بساط زندگی ميں اس کے سب مہرے ہوں مات
خير اسی ميں ہے، قيامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر يہ جہان بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق ميں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حيات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی  بيداری سے ميں
ہے حقيقت جس کے ديں کی احتساب کائنات
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی ميں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی ميں اسے

ختم شُد


ترتیب و تعارف: جلالؔ



صہیونیت کی تاریخ

صہیونیت کی تاریخ
تحریر: جلالؔ
ایک اصطلاح ” عیسائی صہیونی©©“ (Christian Zionist) عام استعمال کی جاتی ہے۔ تمام دنیا اور خاص طور پر اسلام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے سمجھنے کیلئے اس اصطلاح اور صہیونیت کی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ہم عمومی طور پر صہیونیت کو یہودی مذہب سے جڑا کوئی رجحان سمجھتے ہیں۔ دراصل اسکا کرسچن اور یہودی دونوں مذاہب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ انتہا پسند نظریہ ہے جو کئی صدیوں سے ان دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو اس خوبصورتی سے استعمال کر رہا ہے کہ ان مذاہب کے پیروکاروں کو بھی اس کا احساس نہیں ہے۔ اس سب کو سمجھنے کیلئے سچے کرسچن اور ”کرسچن صہیونی“ کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے ۔ بدقسمتی ہے خود حضرت عیسیٰ ؑ کے ماننے والے بھی اس فرق کو پوری طرح نہیں سمجھتے۔ روایتی کیتھولک چرچ کا ” صہیونیت‘ ‘ سے دور دور کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ صہیونیت کی جڑیں سولہویں اور صدی اور اسکے بعد انگلینڈ میں ملتی ہیں۔ پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے کیتھولک چرچ سے اختلافات اور جنگوں کے بعد پروٹسٹنٹ عیسائیوں میں ایک فرقہ ” پیوریٹن“ (Puritans) ملتا ہے۔ یہ انتہا پسند نظریات رکھنے والا ایک گروہ تھا جن کا خیال تھا کہ ان جنگوں کے نتیجے میں ہونیوالی ”پروٹسٹنٹ اصلاحات“ کافی نہیں ہیں۔ ساتھ ہی انکا یہ عقیدہ بھی ہے کہ انکے ”نجات دہندہ“ کے ظہور کیلئے ضروری ہے کہ ”گریٹر اسرائیل“ کی ریاست کا قیام ہو جس میں یروشلم پر یہودیوں کی حکومت ہو۔ انگلینڈ سے یہ عقیدہ امریکہ پہنچا۔ امریکہ میں انکا اثر رسوخ بڑھتا گیا یہاں تک کہ 1808 میں امریکہ میں باقاعدہ تحریک چلی جس میں کہا گیا کہ ”سلطنت عثمانیہ“ کا خاتمہ اور گریٹر اسرائیل کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔ اسی طرح 1825 میں ایک امریکی صہیونی ”Mordecai Manuel Noah“ نے ایک تحریک چلائی کہ نیویارک کے علاقے میں ایک یہودی شہر بسایا جائے جو فلسطین کے علاقے پر یہودی ( دراصل صہیونی) قبضے کیلئے ایک ” بیس کیمپ“ کے طور پر کام کرے ۔ اس تحریک کو امریکی عیسائیوں کی جانب سے خاصی پزیرائی ملی۔ اس سے ان صہیونیوں کا مقصد یہودیوں سے ہمدردی نہیں بلکہ وہ یہ سب اس لیے کر رہے تھے ( اور اب بھی کر رہے ہیں) کیونکہ انکا عقیدہ ہے کہ جب تک گریٹر اسرائیل کا قیام نہیں ہو گا انکا نجات دہندہ نہیں آئیگا۔ امریکہ کے دوسرے صدر ”جان ایڈمز“ نے 1818 میں لکھا تھا ” میری شدید خواہش ہے کہ آزاد یہودی ریاست کا قیام ہو“۔ آگے چل کر انہوں لکھا کہ انکا عقیدہ ہے کہ تمام یہودی وقت کے ساتھ ساتھ Unitarian Christian بن جائینگے۔ یاد رہے کہ صہیونیوں کے انتہا پسندی پر مشتمل عقائد در اصل نہ صرف اصل یہودی عقائد سے متصادم ہیں بلکہ اصل مسیحی عقائد کے بھی خلاف ہیں۔ اسی طرح 1844 میں نیویارک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ” جارج بش“ نے ایک کتاب (The Dry Bones of Israel Revived) لکھی جس میں مندرجہ بالا نظریہ پیش کرنے کے بعد کہا گیا کہ ان واقعات کے بعد تمام دنیا پر صہیونیوں کی مکمل حکومت قائم ہو جائےگی۔ ایک اور ” اتفاق‘ ‘ یہ بھی ہے کہ یہ پروفیسر بعد میں امریکہ کے صدر بننے والے جارج بش کے اجداد میں سے تھے۔ امریکہ میں صہیونیوں کی تنظیم Zionist Organization of America کا قیام 1897 میں ہو گیا تھا۔ اس تنظیم نے اسرائیل کے قیام اور امریکی اداروں اور حکومت کی جانب سے اسرائیلی حکومت اور یہودی صہیونیوں کیلئے امداد حاصل کرنے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ یہ تنظیم اب بھی قائم ہے ۔ دیگر سرگرمیوں کے ساتھ یہ تنظیم اس بات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے کہ امریکی میڈیا، امریکی درسی کتب، اور امریکی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں کوئی ایسی چیز نہ شائع ہو اور نہ بولی جائے جو کسی بھی طرح سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر صہیونیت کے خلاف ہو۔دوسری جانب برطانیہ کو دیکھیں تو برطانیہ پر قابض صہیونی طاقتیں سولہویں صدی کے بعد سے یہودیوں کی اسرائیل میں آباد کاری اور اور گریٹر اسرائیل کے قیام کیلئے کام کرتی نظر آتی ہیں۔ برطانیہ نے 1838 میں یروشلم میں قونصل خانہ قائم کر دیا تھا ۔ 1839 میں چرچ آف سکاٹ لینڈ نے ایک مشن فلسطین کے علاقے میں بھیجا۔ اس مشن نے ان تمام علاقوں میں یہودیوں سے یہ استفسار کیا کہ اگر انکو موقع ملے تو کیا یہ اسرائیل میں جا کر بسنے کیلئے تیار ہیں؟ اس مشن کے ایک رکن الیگزینڈر کیتھ نے یہ تمام روداد 1844 میں اپنی ایک کتاب میں شائع کی۔
اوپر بیان کردہ تمام باتیں کوئی ” سازشی نظریہ“ یا داستان گوئی نہیں بلکہ تاریخ کی کتب میں موجود حقائق ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ دراصل ” صہیونیت“ کا تعلق نہ تو اصل مسیحی مذہب سے ہے اور نہ اصل یہودیوں سے بلکہ یہ انتہا پسند مذہبی نظریات رکھنے والے لوگ ہیں جو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے تمام مذاہب کے لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ ایک جانب اسرائیل پر یہودی صہیونیوں کا قبضہ ہے تو امریکہ کی حکومت اور ادارے ” عیسائی صہیونیوں “ کے زیر اثر ہیں۔ اسی لیے یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی مدد کرنے کیلئے ہر ممکن حد تک جاتے ہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں کو دراصل اور درپردہ صہیونیوں کی مدد حاصل ہے۔ کئی سو برس سے یہ طاقتیں تمام دنیا میں ” مذہبی انتہا پسندی“ کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان بھی مذہب کے نام پر اکٹھے ہوں، اور انسانیت اور اسلام کے ان دشمنوں کو نہ صرف پہچانیں بلکہ اپنے تمام وسائل یکجا کر کے انکو دنیا کے سامنے بے نقاب کریں۔


رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *